منگل، 15 اپریل، 2025

امبیڈکر جینتی اور مسلمانوں کے کرنے کا کام


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر (Dr. B. R. Ambedkar) بھارت کے ایک ممتاز ماہر قانون، سیاستدان، اور سماج سدھارک تھے۔ وہ دلتوں (نچلی ذاتوں) کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی (USA) اور لندن اسکول آف اکنامکس (UK) سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ذات پات کے خلاف جدوجہد کی اور دلتوں کو سماجی انصاف دلانے کے لیے تحریک چلائی۔ بھارت کا آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے صدر رہے اور 1950 میں نافذ کیے گئے آئین کے بنیادی مصنف تھے۔ 

ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کی پیدائش 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش میں ایک مہار ذات کے خاندان میں ہوئی۔ چنانچہ ہر سال 14 اپریل کو آپ کی جینتی منائی جاتی ہے۔

ان بڑی خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے وہ "مہا پُرش" کہلاتے ہیں اور آئینِ ہند کی تیاری میں چوں کہ آپ کا کردار مرکزی رہا ہے، اس لیے انصاف پسند ہندوستانیوں کا آپ کو پسند کرنا ایک بدیہی عمل ہے، لیکن چوں کہ مسلمانوں کے لیے ہر معاملات میں شرعی حدود اور قیود بیان کی گئی ہے، مسلمانوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی وہ تعلیمات جو شریعت سے متصادم نہ ہوں اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ہو تو اس کا بیان اور عام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مستحسن بھی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوانوں میں جائز ناجائز کی تمیز ختم ہوگئی ہے، انہیں بس ہلڑبازی، ناچنے گانے کی محفلوں کا حصہ بننے کا موقع چاہیے، چنانچہ اس مرتبہ ان نوجوانوں نے امبیڈکر جینتی پر ناچنے گانے میں حصہ لیا اور ان جگہوں پر پہنچ کر مورتی کے ساتھ reels بنائی جو شرعاً ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اور یہ ایسے لااُبالی نوجوان ہیں جنہیں نہ تو شریعت کا علم ہے اور نہ ہی ڈاکٹر بابا صاحب کے کارناموں کا۔ اب اسے "بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ " نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ کیوں کہ عبداللہ کو اللہ نے جتنا کام دیا گیا ہے اسے اتنا ہی کرنا چاہیے ضرورت سے زیادہ اور شریعت کو چھوڑ کر اگر وہ مذہبی رواداری کرنے جائے گا تو اسے رواداری نہیں، چاپلوسی کہا جائے گا جو اسے دنیا میں بھی کام نہیں آئے گی، اور آخرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر کو سچا خراج پیش کرنا ہے تو مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر اپنی مذہبی آزادی کو حاصل کرنا ہوگا جو آج ہم سے چھیننے کی غیرآئینی اور مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر بابا صاحب کا مشن ہی یہی تھا کہ آزاد ہندوستان میں ہر ہندوستانی اپنے مذہب پر چلنے کے لیے پورے طور پر آزاد ہو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت اور سنت کے مطابق مذہبی رواداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلے میں ہونے والے ناجائز اعمال سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین 


اتوار، 13 اپریل، 2025

رشتہ کرانے پر اجرت لینے کا حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! اگوا حضرات رشتہ طے کرانے کی اجرت لیتے ہیں، بعض لوگوں کے یہاں پہلے سے ہوتا ہے کہ اتنا دینا پڑے گا؟ بعض کچھ کہتے نہیں ہیں جتنا دیا جائے لے لیتے ہیں، دونوں طرف سے پیسہ لیا جاتا ہے، اس کا شرعی بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : رشتہ کرانا ایک عمل ہے، لہٰذا اس پر اجرت لینا (خواہ طے کرکے ہو یا بغیر طے کیے ہو) جائز ہے، اور ایک فریق سے یا دونوں فریق سے اجرت لینا درست ہے، کیوں کہ یہ بھی دلالی کی ایک شکل ہے، جس کی فقہاء نے گنجائش لکھی ہے۔

  
قَالَ فِي التتارخانية : وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ أَنَّ فِي كُلِّ عَشَرَةِ دَنَانِيرَ كَذَا فَذَاكَ حَرَامٌ عَلَيْهِمْ. وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِ السِّمْسَارِ، فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ۔ (شامی : ٦/٦٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1446

ہفتہ، 12 اپریل، 2025

حج بدل کب کیا جائے گا؟


سوال :

مفتی صاحب ! حج بدل سے متعلق رہنمائی فرمائیں کہ حج بدل کب کیا جاتا ہے؟ کیا کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا حج بدل کروا سکتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عفان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص پر حج فرض ہو، اور حج کا وقت بھی اسے مل گیا ہو، لیکن اس وقت حج ادا نہ کرسکا ہو اور فی الحال اس میں حج ادا کرنے کی بالکل استطاعت نہ ہو، یا ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا کہ جس سے افاقہ کی بالکل امید نہیں ہے، جیسے لقوہ ہو گیا یا اندھا ہو گیا، یعنی سفر کرنے کی اس میں استطاعت نہ رہی ہو، تو ایسے شخص کے ذمے فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو بھیج کر حج کرائے، یا وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال میں سے حج کرایا جائے، اس کو حج بدل کہتے ہیں۔

حج بدل کی شرط یہ ہے کہ وہ بیماری موت تک برقرار رہے، اگر حج بدل کروانے کے بعد مریض میں اتنی استطاعت آگئی کہ سفر کرسکتا ہے، تو پھر دوبارہ اس پر لازم ہوگا کہ بذات خود حج کرے۔

حج بدل کرنے والے کو بس یہ نیت کرنا ہے کہ میں فلاں کی طرف سے حج کررہا ہوں، بقیہ اعمال اسی طرح انجام دینے ہیں جس طرح خود کا حج کرنے والے کو کرنا ہوتا ہے۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ ؟ قَالَ : " نَعَمْ "۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٨٥٤)

وَالْمُرَادُ بِالصِّحَّةِ صِحَّةُ الْجَوَارِحِ فَلَا يَجِبُ أَدَاءُ الْحَجِّ عَلَى مُقْعَدٍ وَلَا عَلَى زَمِنٍ وَلَا مَفْلُوجٍ وَلَا مَقْطُوعِ الرِّجْلَيْنِ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ وَالشَّيْخِ الَّذِي لَا يَثْبُتُ بِنَفْسِهِ عَلَى الرَّاحِلَةِ وَالْأَعْمَى وَالْمَجْبُوسِ وَالْخَائِفِ مِنْ السُّلْطَانِ الَّذِي يَمْنَعُ النَّاسَ مِنْ الْخُرُوجِ إلَى الْحَجِّ لَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ الْحَجُّ بِأَنْفُسِهِمْ وَلَا الْإِحْجَاجُ عَنْهُمْ إنْ قَدَرُوا عَلَى ذَلِكَ هَذَا ظَاهِرُ الْمَذْهَبِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْهُمَا
وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ عَنْهُمَا أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِمْ الْإِحْجَاجُ فَإِنْ أَحَجُّوا أَجْزَأَهُمْ مَا دَامَ الْعَجْزُ مُسْتَمِرًّا بِهِمْ فَإِنْ زَالَ فَعَلَيْهِمْ الْإِعَادَةُ بِأَنْفُسِهِمْ وَظَاهِرُ مَا فِي التُّحْفَةِ اخْتِيَارُهُ فَإِنَّهُ اقْتَصَرَ عَلَيْهِ وَكَذَا الْإِسْبِيجَابِيُّ وَقَوَّاهُ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَمَشَى عَلَى أَنَّ الصِّحَّةَ مِنْ شَرَائِطِ وُجُوبِ الْأَدَاءِ فَالْحَاصِلُ أَنَّهَا مِنْ شَرَائِطِ الْوُجُوبِ عِنْدَهُ وَمِنْ شَرَائِطِ وُجُوبِ الْأَدَاءِ عِنْدَهُمَا وَفَائِدَةُ الْخِلَافِ تَظْهَرُ فِي وُجُوبِ الْإِحْجَاجِ كَمَا ذَكَرْنَا فِي وُجُوبِ الْإِيصَاءِ وَمَحَلُّ الْخِلَافِ فِيمَا إذَا لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْحَجِّ وَهُوَ صَحِيحٌ أَمَّا إنْ قَدَرَ عَلَيْهِ وَهُوَ صَحِيحٌ ثُمَّ زَالَتْ الصِّحَّةُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إلَى الْحَجِّ فَإِنَّهُ يَتَقَرَّرُ دَيْنًا فِي ذِمَّتِهِ فَيَجِبُ عَلَيْهِ الْإِحْجَاجُ اتِّفَاقًا۔ (البحرالرائق : ٢/٣٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1446

جمعرات، 10 اپریل، 2025

درود ناریہ کی شرعی حیثیت


سوال :

محترم مفتی صاحب ! درود ناریہ کیا ہے؟ اس کی فضیلت کیا ہے؟ اور کیا یہ حدیث شریف سے ثابت ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد اطہر، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : درود ناریہ کو شیخ احمد رفاعی یا شیخ ابراہیم التازی الوہرانی رحمھما اللہ نے بنایا ہے۔ اور اسے درود ناریہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ آگ کی طرح تیزی سے مشکلات کو ختم کرتی ہے۔ البتہ اس کا خیال رہنا چاہیے کہ درود ناریہ کے الفاظ اور اس کی فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔

درود ناریہ درج ذیل ہے :

الَلّٰھُمَّ صَلِّ صَلٰوةً كَامِلَةً وَّسَلِّمْ سَلَامًا تَآمًا عَلٰى سَیَّدِنَا وَ مَوْلَانَامُحَمَّدِ نِ الَّذِيْ تَنْحَلُّ بِهِ الْعُقَدُ وَ تَنْفَرِجُ بِهِ الْکُرَبُ وَتُقْضٰى بِهِالْحَوَائِجُ وَ تُنَالُ بِهِ الرَّغَائِبُ وَحُسْنُ الْخَوَاتِيْمِ وَ یُسْتَسْقَى الْغَمَامُبِوَجْهِهِ الْكَرِیْم وَ عَلٰى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ فِيْ كُلِّ لَمْحَةٍ وَّ نَفَسٍبِعَدَدِ كُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّكَ یَا اَللّٰهُ یَا اَللّٰهُ یَااَللّٰهُ

ترجمہ : اے اللہ ! تو ایسی رحمت نازل فرما جو کامل ہو اور ایسی  سلامتی بھیج  جو مکمل ہو ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جن کے وسیلے سے مشکلیں حل ہوتی ہیں اور پریشانیاں دورہوتی ہیں اور ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور مقاصد حاصل ہوتے ہیں اور خاتمہ بالخیر ہوتاہے اور بادل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معزز چہرہ کو دیکھ کر سیراب ہوتا ہے، اور رحمت بھیج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر ہر لمحہ اور ہر سانس میں، اے اللہ اے اللہ اے اللہ!۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
درج کردہ درود، حدیث شریف سے ثابت نہیں، نہ ہی اس نام سے (درودِ ناریہ) کے نام سے کوئی درود حدیث میں آیا ہے۔ یہ کسی نے اپنی طرف سے بنایا ہے۔ درود شریف کی جس قدر عبارت آپ نے نقل فرمائی ہے معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔ درود شریف میں بہت سی صحیح درود کی کتابیں چھپی ہوئی ہیں انہیں آپ پڑھا کریں۔ (رقم الفتوی : 602802)

معلوم ہوا کہ درود ناریہ پڑھ سکتے ہیں، اس لیے کہ اس کے الفاظ میں کوئی خلافِ شرع بات نہیں ہے، لیکن افضل بہرحال وہی درود ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہوں۔


إن الأفضل والأولی والأکثر ثواباً والأجزل جزائً وأرضاہا عند اللّٰہ ورسولہ ا ہي الصیغۃ الماثورۃ، ویحصل ثواب الصلاۃ والتسلیم بغیرہا أیضاً بشرط أن یکون فیہا طلب الصلاۃ والرحمۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اللّٰہ عزوجل۔ (أحکام القرآن : ۵؍۳۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1446

بدھ، 9 اپریل، 2025

مجبوراً کفریہ جملہ کہنے کا حکم


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! اِن دنوں کچھ شر پسند ایک یا چند مسلمانوں کو گھیر کر زبر دستی جے شری رام یا دیگر کفریہ جملے ادا کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں، بعض اوقات انکار کی صورت میں زدو کوب کرتے ہیں حتّٰی کہ اُس مسلمان کی جان بھی لے لیتے ہیں، ایسی حالت میں پھنسے مسلمان کو بادلِ ناخواستہ وہ کفریہ جملے ادا کرنے پڑتے ہیں ورنہ جان جانے کا خطرہ ہو جاتا ہے، تو ایسے میں شریعت کیا راستہ اپنانے کی طرف رہنمائی کرتی ہے؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : خورشید عالم، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص کو کلمۂ کفر کہنے پر اس طرح مجبور کردیا جائے کہ اگر وہ یہ کلمہ نہ کہے تو اس کوقتل کردیا جائے گا یا اس کو سخت جانی نقصان پہنچایا جائے گا تو ایسی مجبوری کی صورت میں اگر وہ زبان سے کلمۂ کفر کہہ دے، لیکن اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو اور وہ اس کلمۂ کفر کو باطل اور بُرا جانتا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ جان بچانے کے لئے مجبوراً یہ کلمہ کہہ دے اور دل میں اپنے ایمان پر قائم رہے۔ اس سلسلے میں خود قرآنِ کریم میں واضح رہنمائی ملتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ (سورۃ النحل، آیت : ١٠٦)

ترجمہ : جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا، اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مجبور ہوکر اگر کسی نے کلمہ کفر کہا اور وہ دل سے اپنے ایمان واسلام پر مطمئن اور ثابت قدم تھا تو اس سے بھی وہ شخص اسلام سے باہر نہیں ہوا نہ ہی اس سے نکاح ٹوٹتا ہے۔ (رقم الفتوی : 151617)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ صورتِ مسئولہ میں کلمۂ کفر مثلاً "جے شری رام" وغیرہ کہنے کی گنجائش ہے، لیکن اگر وہ کلمۂ کفر نہ کہے اور مزاحمت کرتا ہوا مارا جائے تو یہ عزیمت ہے اور اس میں زیادہ ثواب اور شہادت کا اجر ہے۔


وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ أى ساكن به لم يتغير عقيدته وفيه دليل على ان الركن اللازم للايمان هو التصديق بالقلب ۔۔۔ فقد اجمع العلماء على انه من اكره على الكفر اكراها ملجيا يجوز له ان يتلفظ بما اكره عليه مطمئنّا قلبه بالايمان بهذه الآية۔ (تفسیر مظہری : ۳۷۷/۵)

(وَ) إنْ أُكْرِهَ (عَلَى الْكُفْرِ) بِاَللَّهِ تَعَالَى أَوْ سَبِّ النَّبِيِّ ﷺ مَجْمَعٌ، وَقُدُورِيٌّ (بِقَطْعٍ أَوْ قَتْلٍ رُخِّصَ لَهُ أَنْ يُظْهِرَ مَا أُمِرَ بِهِ) عَلَى لِسَانِهِ، وَيُوَرِّي (وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ) ۔۔۔ قَوْلُهُ: وَيُؤْجَرُ لَوْ صَبَرَ) أَيْ يُؤْجَرُ أَجْرَ الشُّهَدَاءِ۔ (شامی : ٦/١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1446

اتوار، 6 اپریل، 2025

نوچندی جمعرات کی شرعی حیثیت


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! نو چندی جمعرات کیا ہے؟ اور کب آتا ہے؟ اسکا کیا مطلب ہے؟ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے اس دن دعائیں تمنائیں پوری ہوتی ہیں۔اس جمعرات کی رات میں عبادات کرنا زیادہ افضل ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : محمد اسلم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہر قمری اور اسلامی مہینے کی پہلی جمعرات کو بعض لوگ نوچندی یعنی نئے چاند کی جمعرات کہتے ہیں۔ اس جمعرات سے متعلق عوام میں متعدد بے بنیاد اور غلط عقائد مشہور ہیں، مثلاً اس جمعرات کو شرعاً افضل سمجھنا، دعا کی زیادہ قبولیت کا موقع سمجھنا اور مزارات پر حاضری دینا وغیرہ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے قمری مہینے کی پہلی جمعرات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے، لہٰذا نوچندی جمعرات کو دیگر جمعرات سے افضل سمجھنا اور یہ سمجھ کر اس میں خصوصیت سے عبادت کرنا اور دعا کرنا دین میں زیادتی ہے جو شرعاً بدعت اور گمراہی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔


عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)

(قوله : من أحدث في أمرنا هذا) الإحداث في أمر النبي، صلى الله عليه وسلم، هو اختراع شيء في دينه بما ليس فيه، مما لايوجد في الكتاب والسنة. قوله: (فهو رد) أي: مردود، ومن باب إطلاق المصدر على اسم المفعول، كما يقال: هذا خلق الله، أي : مخلوقه، وهذا نسج فلان، أي: منسوجه، وحاصل معناه: أنه باطل غير معتد بہ۔

وفيه : رد المحدثات وأنها ليست من الدين لأنه ليس عليها أمره، صلى الله عليه وسلم، والمراد به أمر الدين۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ١٣/٢٧٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 شوال المکرم 1446

پیر، 10 مارچ، 2025

مکان بنانے یا بیچنے کی نیت سے خریدی گئی زمین پر زکوٰۃ ؟


سوال :

ایک شخص نے شہر کے مضافات میں ایک پلاٹ خریدا، خریدتے وقت اس کی نیت یہ تھی کہ اگر یہاں بستی آباد ہوئی تو گھر بنا کر رہنے آئیں گے یا اگر پلاٹ کا اچھا دام مل جائے تو بیچ دیں گے تو کیا ایسے پلاٹ پر زکوٰۃ دینا ہوگا یا نہیں؟
(المستفتی : صغیر احمد، پونے)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی زمین خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ اسے ذاتی استعمال میں لایا جائے گا، مثلاً پلاٹ پر مکان، کارخانہ یا دوکان وغیرہ بناکر اسے خود استعمال کرے گا یا اسے کرایہ سے دے گا یا پھر اگر مناسب قیمت آئی تو اسے فروخت کردے گا تو اس زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مفتی سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
کوئی چیز استعمال کے لئے خریدی، ساتھ میں یہ نیت تھی کہ نفع ملے گا تو بیچ دوں گا ورنہ رکھے رہوں گا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ (کتاب المسائل : ٢/٢١٥)

صورتِ مسئولہ میں چونکہ اس شخص نے اپنے پلاٹ پر مکان بنانے کی بھی نیت کی ہے، صرف فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ نہیں خریدا ہے، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔


أو اشتریٰ شیئاً للقنیۃ ناویاً أنہ إن وجد ربحاً باعہ لازکاۃ علیہ۔ (طحطاوی ۳۹۱، الدر المختار مع الشامی زکریا ۳؍۱۹۵، فتح القدیر ۲؍۲۱۸، الولوالجیۃ ۱؍۱۸۳، المحیط البرہانی ۲؍۳۹۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رمضان المبارک 1446