سوال :
محترم مفتی صاحب ! اِن دنوں کچھ شر پسند ایک یا چند مسلمانوں کو گھیر کر زبر دستی جے شری رام یا دیگر کفریہ جملے ادا کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں، بعض اوقات انکار کی صورت میں زدو کوب کرتے ہیں حتّٰی کہ اُس مسلمان کی جان بھی لے لیتے ہیں، ایسی حالت میں پھنسے مسلمان کو بادلِ ناخواستہ وہ کفریہ جملے ادا کرنے پڑتے ہیں ورنہ جان جانے کا خطرہ ہو جاتا ہے، تو ایسے میں شریعت کیا راستہ اپنانے کی طرف رہنمائی کرتی ہے؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : خورشید عالم، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص کو کلمۂ کفر کہنے پر اس طرح مجبور کردیا جائے کہ اگر وہ یہ کلمہ نہ کہے تو اس کوقتل کردیا جائے گا یا اس کو سخت جانی نقصان پہنچایا جائے گا تو ایسی مجبوری کی صورت میں اگر وہ زبان سے کلمۂ کفر کہہ دے، لیکن اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو اور وہ اس کلمۂ کفر کو باطل اور بُرا جانتا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ جان بچانے کے لئے مجبوراً یہ کلمہ کہہ دے اور دل میں اپنے ایمان پر قائم رہے۔ اس سلسلے میں خود قرآنِ کریم میں واضح رہنمائی ملتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ (سورۃ النحل، آیت : ١٠٦)
ترجمہ : جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا، اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مجبور ہوکر اگر کسی نے کلمہ کفر کہا اور وہ دل سے اپنے ایمان واسلام پر مطمئن اور ثابت قدم تھا تو اس سے بھی وہ شخص اسلام سے باہر نہیں ہوا نہ ہی اس سے نکاح ٹوٹتا ہے۔ (رقم الفتوی : 151617)
درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ صورتِ مسئولہ میں کلمۂ کفر مثلاً "جے شری رام" وغیرہ کہنے کی گنجائش ہے، لیکن اگر وہ کلمۂ کفر نہ کہے اور مزاحمت کرتا ہوا مارا جائے تو یہ عزیمت ہے اور اس میں زیادہ ثواب اور شہادت کا اجر ہے۔
وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ أى ساكن به لم يتغير عقيدته وفيه دليل على ان الركن اللازم للايمان هو التصديق بالقلب ۔۔۔ فقد اجمع العلماء على انه من اكره على الكفر اكراها ملجيا يجوز له ان يتلفظ بما اكره عليه مطمئنّا قلبه بالايمان بهذه الآية۔ (تفسیر مظہری : ۳۷۷/۵)
(وَ) إنْ أُكْرِهَ (عَلَى الْكُفْرِ) بِاَللَّهِ تَعَالَى أَوْ سَبِّ النَّبِيِّ ﷺ مَجْمَعٌ، وَقُدُورِيٌّ (بِقَطْعٍ أَوْ قَتْلٍ رُخِّصَ لَهُ أَنْ يُظْهِرَ مَا أُمِرَ بِهِ) عَلَى لِسَانِهِ، وَيُوَرِّي (وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ) ۔۔۔ قَوْلُهُ: وَيُؤْجَرُ لَوْ صَبَرَ) أَيْ يُؤْجَرُ أَجْرَ الشُّهَدَاءِ۔ (شامی : ٦/١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1446
جزاك اللهُ mufti sahb
جواب دیںحذف کریں