ہفتہ، 19 اپریل، 2025

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! خبر ہے کہ داؤدی بوہرہ مذہب کے ایک وفد نے جمعرات کے روز وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور حالیہ منظور شدہ وقف ترمیمی قانون 2025 پر ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی باور کرایا کہ یہ قانون ان کی برادری کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ اس خبر کے پڑھنے کے بعد کچھ باتیں ذہن میں آرہی ہیں جسے آپ حضرات کی بصارت اور بصیرت کے حوالے کرنا ضروری سمجھتے  ہیں۔

سب سے پہلے ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بوہرہ اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں یا سرکاری کاغذات میں انہیں مسلمان تسلیم کیا جاتا ہو، لیکن ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے، اس لیے کہ ان کے بہت سے عقائد کفریہ ہیں۔ اور ان کے اعمال کی بات کی جائے تو انہیں مادر زاد برہنہ سادھو کے پیر پڑتے اور ناریل چڑھاتے دیکھا گیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
 بوہرہ فرقہ اپنے عقائد کفریہ کی بنا پر کافر ومرتد اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے؛ اس سلسلے میں بعض لوگوں کی بات درست ہے، مسلمان ہونے کے لیے صرف نماز پڑھ لینا یا حج کرلینا کافی نہیں بلکہ اسلام لانے کے بعد ضروریاتِ دین کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے اور عقائد کفریہ وشرکیہ سے براءت ضروری ہے، ان کے بنیادی عقائد درج ذیل ہیں : (۱) اس جماعت کے بانی محمد برہان الدین طیب کی نسل میں برابر امامت کا سلسلہ چل رہا ہے، اگرچہ امام طیب خود غائب ہیں مگر وہ داعی کو برابر ہدایات دیتے رہتے ہیں اور اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ کرام اللہ تعالیٰ کا نور، مفترض الطاعة اور معصوم ہوتے ہیں، دنیا وآخرت ان کی ملکیت میں ہے جس کو چاہیں دیدیں اور جس چیز کو چاہیں حلال کردیں اور جس چیز کو چاہیں حرام کردیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا وآخرت کے خزائن کا مالک ہونا حلال وحرام کرنا یہ اللہ رب العزت کی صفت ہے، غیر اللہ کے لیے اس کو ثابت کرنا شرک ہے۔ (۲) سود لینا جائز ہے۔ (۳) دیوالی (مندر سوار) پر بھی وہ روشنی کرتے ہیں۔ (۴) مسجد، جماعت خانہ، قبرستان سب ان کا جدا ہے۔ (۵) کلمہ میں اضافہ اس طرح کرتے ہیں لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ مولا علي ولي اللہ وصي رسول اللہ۔ (۶ اذان میں ”اشہد ان محمدا رسول اللہ“ کے بعد ”اشہد أن مولا علیا ولی اللہ“ اور حی ”علی الفلاح“ کے بعد ”حی علی خیر العمل محمد وعلی خیر البشر وعشرتہا علی خیر العمل“ کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ان عقائد کی بنا پر جن میں بعض کفریہ وشرکیہ ہیں، یہ فرقہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔ (رقم الفتوی : 64076)

بوہرہ سماج کے وفد سے وزیراعظم کہتے کہ ہیں کہ میں نے وقف قانون بنانے سے پہلے بوہرہ کے "سید" سے مشورہ کیا اور انہوں نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم کی کافی مدد کی۔ 

وزیراعظم کا کام بھی عموماً دماغ کے باہر ہی ہوتا ہے، وقف کا مسئلہ خالص مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو انہیں غیرمسلموں سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر وہ انہیں مسلمان سمجھتے بھی ہیں تب بھی بوہرہ سماج کی ان کے اپنے مذہب کے مطابق اوقاف کی املاک اگر ہوں بھی تو اصل مسلمانوں کے اوقاف میں ان کا حصہ ہزارواں بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے جب بوہرہ حضرات کا اوقاف میں کوئی قابل ذکر حصہ ہی نہیں ہے تو ان سے مشورہ لینا دماغی توازن کے درست نہ ہونے یا پھر من مانی کرنے پر دلالت کرتا ہے۔

بوہرہ حضرات اس کالے قانون کے بننے پر خاموشی سے خوش ہولیتے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض کا موقع ہی نہیں ملتا، لیکن انہوں نے باقاعدہ وزیراعظم کے پاس وفد لے جاکر اس کالے قانون کے بننے پر اپنی حمایت دی اور شکریہ ادا کرکے مسلمانوں کی متفقہ لڑائی کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جس کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا پڑے گا۔ 

بوہرہ حضرات کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ آج ان لوگوں کی جو معاشی حالت ہے وہ مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے، ان کے زیادہ تر تجارتی معاملات مسلمانوں سے ہی ہوتے ہیں، اور اسی تجارتی معاملات سے ان کی معاشی حالت میں بہتری ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام کیا ہے۔ لہٰذا مسلمان اب ان سے تجارتی معاملات کرنے کے بارے میں سو بار سوچیں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اعلانیہ ان کا تجارتی بائیکاٹ بھی ہو۔ اس لیے کہ فی الحال مسلمان وقف ترمیمی قانون کے حامیوں کو بخشنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اگر بوہرہ سماج کی علامتی نمائندگی ہے ہماری ذمہ داران سے دست بستہ گزارش ہے کہ بوہرہ سماج کے نمائندے سے اس ناجائز حمایت کی تردید اور رجوع کروایا جائے، بصورتِ دیگر انہیں بورڈ سے فارغ کردیا جائے، کیوں کہ اس ابن الوقت جماعت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے بورڈ میں رہنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، اس لیے کہ حکومت کی چاپلوسی اور اس کی "ہاں میں ہاں ملانا" ان کی معراج ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سراسر ناانصافی پر مبنی اس قانون کو مکمل طور پر ختم ہونے کے فیصلے فرمائے، اور ہمیں اس سلسلے میں بساط بھر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

6 تبصرے:

  1. مسلمان کے بھیس میں یہ آج کے جدید دور کے اعلانیہ میر جعفر و میر صادق ہیں ۔ بائیکاٹ لازمی کریں ۔شکرا

    جواب دیںحذف کریں
  2. اعلانیہ ان کا بائیکاٹ ہونا چاہیے اور اپنے مالیگاؤں اور شہر کے اندر بھی ان کی دکانوں سے کوئی چیز خریدی نہ جائے اور ان کا بائیکاٹ کرنے چاہیے علماء کو اس کے اوپر بیان دینا چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  3. سوال یہ بھی ہے کہ جب انہیں ہندوؤں سے اتنا فائدہ ہے تب یہ مسلمانوں کے درمیان کو اپنا کاروبار کرتے ہیں اور اپنی رہائش بھی مسلمانوں کے درمیان کیوں رکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. آج سے انہیں بوہرا جماعت نہیں
    بھڑوا جماعت کہا جائے

    جواب دیںحذف کریں
  5. Notifications zari kro boycott ka isne koi chiz nhi kharidne ka h inse

    جواب دیںحذف کریں
  6. ان کا معاشی بائیکاٹ بہت ضروری ہےتا کے انکو اپنی اوقت کاپتہ چلے

    جواب دیںحذف کریں