سوال :
محترم مفتی صاحب ! اگوا حضرات رشتہ طے کرانے کی اجرت لیتے ہیں، بعض لوگوں کے یہاں پہلے سے ہوتا ہے کہ اتنا دینا پڑے گا؟ بعض کچھ کہتے نہیں ہیں جتنا دیا جائے لے لیتے ہیں، دونوں طرف سے پیسہ لیا جاتا ہے، اس کا شرعی بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رشتہ کرانا ایک عمل ہے، لہٰذا اس پر اجرت لینا (خواہ طے کرکے ہو یا بغیر طے کیے ہو) جائز ہے، اور ایک فریق سے یا دونوں فریق سے اجرت لینا درست ہے، کیوں کہ یہ بھی دلالی کی ایک شکل ہے، جس کی فقہاء نے گنجائش لکھی ہے۔
قَالَ فِي التتارخانية : وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ أَنَّ فِي كُلِّ عَشَرَةِ دَنَانِيرَ كَذَا فَذَاكَ حَرَامٌ عَلَيْهِمْ. وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِ السِّمْسَارِ، فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ۔ (شامی : ٦/٦٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں