✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر (Dr. B. R. Ambedkar) بھارت کے ایک ممتاز ماہر قانون، سیاستدان، اور سماج سدھارک تھے۔ وہ دلتوں (نچلی ذاتوں) کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی (USA) اور لندن اسکول آف اکنامکس (UK) سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ذات پات کے خلاف جدوجہد کی اور دلتوں کو سماجی انصاف دلانے کے لیے تحریک چلائی۔ بھارت کا آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے صدر رہے اور 1950 میں نافذ کیے گئے آئین کے بنیادی مصنف تھے۔
ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کی پیدائش 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش میں ایک مہار ذات کے خاندان میں ہوئی۔ چنانچہ ہر سال 14 اپریل کو آپ کی جینتی منائی جاتی ہے۔
ان بڑی خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے وہ "مہا پُرش" کہلاتے ہیں اور آئینِ ہند کی تیاری میں چوں کہ آپ کا کردار مرکزی رہا ہے، اس لیے انصاف پسند ہندوستانیوں کا آپ کو پسند کرنا ایک بدیہی عمل ہے، لیکن چوں کہ مسلمانوں کے لیے ہر معاملات میں شرعی حدود اور قیود بیان کی گئی ہے، مسلمانوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی وہ تعلیمات جو شریعت سے متصادم نہ ہوں اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ہو تو اس کا بیان اور عام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مستحسن بھی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوانوں میں جائز ناجائز کی تمیز ختم ہوگئی ہے، انہیں بس ہلڑبازی، ناچنے گانے کی محفلوں کا حصہ بننے کا موقع چاہیے، چنانچہ اس مرتبہ ان نوجوانوں نے امبیڈکر جینتی پر ناچنے گانے میں حصہ لیا اور ان جگہوں پر پہنچ کر مورتی کے ساتھ reels بنائی جو شرعاً ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اور یہ ایسے لااُبالی نوجوان ہیں جنہیں نہ تو شریعت کا علم ہے اور نہ ہی ڈاکٹر بابا صاحب کے کارناموں کا۔ اب اسے "بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ " نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ کیوں کہ عبداللہ کو اللہ نے جتنا کام دیا گیا ہے اسے اتنا ہی کرنا چاہیے ضرورت سے زیادہ اور شریعت کو چھوڑ کر اگر وہ مذہبی رواداری کرنے جائے گا تو اسے رواداری نہیں، چاپلوسی کہا جائے گا جو اسے دنیا میں بھی کام نہیں آئے گی، اور آخرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر کو سچا خراج پیش کرنا ہے تو مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر اپنی مذہبی آزادی کو حاصل کرنا ہوگا جو آج ہم سے چھیننے کی غیرآئینی اور مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر بابا صاحب کا مشن ہی یہی تھا کہ آزاد ہندوستان میں ہر ہندوستانی اپنے مذہب پر چلنے کے لیے پورے طور پر آزاد ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت اور سنت کے مطابق مذہبی رواداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلے میں ہونے والے ناجائز اعمال سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین