پیر، 10 مارچ، 2025

مکان بنانے یا بیچنے کی نیت سے خریدی گئی زمین پر زکوٰۃ ؟


سوال :

ایک شخص نے شہر کے مضافات میں ایک پلاٹ خریدا، خریدتے وقت اس کی نیت یہ تھی کہ اگر یہاں بستی آباد ہوئی تو گھر بنا کر رہنے آئیں گے یا اگر پلاٹ کا اچھا دام مل جائے تو بیچ دیں گے تو کیا ایسے پلاٹ پر زکوٰۃ دینا ہوگا یا نہیں؟
(المستفتی : صغیر احمد، پونے)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی زمین خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ اسے ذاتی استعمال میں لایا جائے گا، مثلاً پلاٹ پر مکان، کارخانہ یا دوکان وغیرہ بناکر اسے خود استعمال کرے گا یا اسے کرایہ سے دے گا یا پھر اگر مناسب قیمت آئی تو اسے فروخت کردے گا تو اس زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مفتی سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
کوئی چیز استعمال کے لئے خریدی، ساتھ میں یہ نیت تھی کہ نفع ملے گا تو بیچ دوں گا ورنہ رکھے رہوں گا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ (کتاب المسائل : ٢/٢١٥)

صورتِ مسئولہ میں چونکہ اس شخص نے اپنے پلاٹ پر مکان بنانے کی بھی نیت کی ہے، صرف فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ نہیں خریدا ہے، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔


أو اشتریٰ شیئاً للقنیۃ ناویاً أنہ إن وجد ربحاً باعہ لازکاۃ علیہ۔ (طحطاوی ۳۹۱، الدر المختار مع الشامی زکریا ۳؍۱۹۵، فتح القدیر ۲؍۲۱۸، الولوالجیۃ ۱؍۱۸۳، المحیط البرہانی ۲؍۳۹۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رمضان المبارک 1446

اتوار، 9 مارچ، 2025

بقایا تنخواہ پر زکوٰۃ کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! ایک مسئلہ یہ ہے کہ تنخواہ کی بقایا رقم جو تقریباً ایک سال کی مدت کے بعد حاصل ہونے والی ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : قمر الدین، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تنخواہ کی رقم جب تک وصول نہ ہوجائے وہ ملازم کی ملکیت میں شمار نہیں ہوتی، بلکہ یہ ادارہ، محکمہ اور مالک کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہے، جسے دینِ ضعیف کہا جاتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ایک سال کی  بقایا تنخواہ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ 
 

وَأَمَّا سَائِرُ الدُّيُونِ الْمُقِرِّ بِهَا فَهِيَ عَلَى ثَلَاثِ مَرَاتِبَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - ضَعِيفٌ، وَهُوَ كُلُّ دَيْنٍ مَلَكَهُ بِغَيْرِ فِعْلِهِ لَا بَدَلًا عَنْ شَيْءٍ نَحْوُ الْمِيرَاثِ أَوْ بِفِعْلِهِ لَا بَدَلًا عَنْ شَيْءٍ كَالْوَصِيَّةِ أَوْ بِفِعْلِهِ بَدَلًا عَمَّا لَيْسَ بِمَالٍ كَالْمَهْرِ وَبَدَلِ الْخُلْعِ وَالصُّلْحِ عَنْ دَمِ الْعَمْدِ وَالدِّيَةِ وَبَدَلِ الْكِتَابَةِ لَا زَكَاةَ فِيهِ عِنْدَهُ حَتَّى يَقْبِضَ نِصَابًا وَيَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٧٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
08 رمضان المبارک 1446

ہفتہ، 1 مارچ، 2025

تروایح میں رکوع تک بیٹھے رہنا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ تراویح کی پہلی رکعت میں بیٹھے رہتے ہیں، جب امام رکوع میں جاتے ہیں تو فوراً اٹھ کر نیت باندھ کر نماز میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح تراویح پڑھنا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تراویح میں بعض لوگوں کا بیٹھے رہنا اور جب امام رکوع میں جائے تو یہ لوگ بھی رکوع میں چلے جائیں تو ایسا کرنا مکروہ ہے، اور چونکہ انہوں نے قرآن مجید کا یہ حصہ تراویح میں نہیں سنا، بلکہ نماز کے باہر رہے تو ان کا قرآن ادھورا رہ جائے گا۔ 

حضرت مولانا مفتی یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
تراویح میں ایک بار پورا قرآن مجید سننا ضروری اور سنتِ موٴکدہ ہے، جو لوگ امام کے ساتھ شریک نہیں ہوتے ان سے اتنا حصہ قرآنِ کریم کا فوت ہوجاتا ہے، اس لئے یہ لوگ نہ صرف ایک ثواب سے محروم رہتے ہیں، بلکہ نہایت مکروہ فعل کے مرتکب ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا یہ فعل قرآنِ کریم سے اعراض کے مشابہ ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٣/١٩)

لہٰذا ایسا عمل جس سے تراویح اور قرآن مجید کی بے اکرامی ہوتی ہو اس سے بچنا ضروری ہے۔


وَيُكْرَهُ لِلْمُقْتَدِي أَنْ يَقْعُدَ فِي التَّرَاوِيحِ فَإِذَا أَرَادَ الْإِمَامُ أَنْ يَرْكَعَ يَقُومُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١١٩)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
30 شعبان المعظم 1446

یہ مالیگاؤں ہے پیارے !

یہاں سونا خریدنے کے لیے بھی لمبی لائن لگتی ہے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے۔ اگرچہ بعض لوگ تنگی اور مندے کی شکایت کررہے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں آسودہ حال لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آپ کھانے پینے کی چھوٹی سے لے کر بڑی بڑی ہوٹلوں، بازاروں میں عام دوکانوں سے لے کر بڑے بڑے شوروم کی بھیڑ بھاڑ سے لگا سکتے ہیں۔

محترم قارئین ! فی الحال واقعہ یہ ہے کہ قلب شہر میں سونے چاندی کے زیورات کی ایک بہت بڑی دوکان کا بڑے تام جھام کے ساتھ افتتاح ہوا، اس کے لیے شہر کی ایک اہم شاہراہ گھنٹوں بند کردی گئی، اور چونکہ یہ دوکان ایک تنگ لیکن انتہائی مشغول سڑک پر ہے، اس لیے غالب گمان ہے کہ اب یہاں مستقل ٹرافک کا نظام درہم برہم رہے گا، اس لیے دوکان مالکان کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ راہ گیروں کو تکلیف نہ ہو اور تقویٰ کا مطلب باقی رہے، مذاق نہ بن جائے۔ معاذ اللہ

ویسے مدعے کی بات یہ ہے کہ یہاں افتتاح کے بعد چند دنوں کے لیے کچھ آفرز رکھے گئے، جس کا لابھ اٹھانے کے لیے سونے کے زیورات کی مالک خواتینِ اسلام کا جم غفیر اس طرح امڈ پڑا جیسے یہاں سونا مفت مل رہا ہو۔ اب تک تو ہم نے زکوٰۃ کی کِٹ وغیرہ کی وصولی یا پھر سرکاری دوکانوں سے راشن کے لیے غریبوں کی لمبی لائنیں دیکھی تھی، اب یہ نظارہ بھی دیکھنے کو مل گیا کہ سونے کی دوکان پر لوگ لمبی لائن لگاکر کھڑے ہوئے ہیں۔

جی ہاں ! دوکان کے کھلنے سے کئی گھنٹے پہلے ہی خواتین باہر دھوپ میں نمبر لگائے کھڑی ہوئی ہیں، اور رات رات بھر خریدی ہورہی ہے۔ جب کہ سونا کوئی ایسی ضرورت کی چیز نہیں ہے جس کی خریداری کے لیے پردہ نشین خواتین کو گھنٹوں سڑک پر کھڑے رہنا اور رات شوروم میں گزارنا پڑے۔ اور کیا اس طرح لمبی لائن لگا کر سونا خریدنا یہ حکومت کی نظر میں آنے والا کام نہیں ہے؟

اور یہ بات ذہن میں رہنا چاہیے کہ کوئی بھی آفر دوکاندار کے فائدہ سے خالی نہیں ہوتا، لاکھوں روپے صرف ڈیکوریشن میں لگانے والے کوئی ایسا آفر نہیں رکھیں گے جس میں ان کا فائدہ نہ ہو، اس لیے ہوش کے ناخن لیں، کسی بھی چیز کے لیے گرنے پڑنے کا جو مزاج شہریان بالخصوص خواتین میں بنا ہوا ہے یہ کوئی مہذب عمل ہے، نہ ہی شرعاً پسندیدہ۔ جس سے بچنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے، اور ہر کام کو صحیح طور پر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین