جمعہ، 7 فروری، 2025

قادیانی کی نماز جنازہ اور اس کی تدفین کا حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! کسی قادیانی اور احادیث کا انکار کرنے والے شخص کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ کیا کفن سنت کے مطابق دیا جائے گا؟ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھا دے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ براہ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قادیانی اور احادیث کا انکار کرنے والا شخص بغیر توبہ کے مرجائے تو اس پر شرعاً مرتد اور کافر کا حکم لاگو ہوگا۔

قادیانی اور منکرِ حدیث علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے، اس لئے کہ قادیانی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے کا منکر ہوتا ہے، اسی طرح حدیث کا انکار دراصل قرآنِ کریم کا انکار ہے۔ (1)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ۔ (التوبۃ :۸۰)
ترجمہ : اور ان میں سے جو کوئی شخص مرجائے آپ اس پر کبھی نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں، بیشک ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ نافرمان تھے ۔

اس آیت کے تحت امام جصاصؒ تفسیر "احکام القرآن" میں لکھتے ہیں :
وحظر ھا (ای الصلوٰۃ) علی موتی الکفار…الخ
ترجمہ : اور اس میں کفار کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی ممانعت ہے۔

قرآن پاک کی مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مرتد کے لیے مغفرت کی دعا کرنا یا اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ایسےشخص کو کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں دفن کردیا جائے گا، نہ نماز پڑھی جائے گی اور نہ ہی سنت کے مطابق تجہیز وتکفین کی جائے گی۔ (2) ایسے شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی درست نہیں ہے ۔ (3)

کفایہ شرح ہدایہ میں ہے :
لان الموضع الذی فیہ الکافر ینزل فیہ اللعن والسخط والمسلم یحتاج إلی نزول الرحمۃ فی کل ساعۃ فینزہ قبرہ من ذلک کذا فی المحیط۔ (الکفایۃ مع فتح القدیر، باب الجنائز، فصل فی حمل الجنازۃ :۲؍۹۵۔ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

ترجمہ : چونکہ کافر کی قبر پر اﷲ تعالیٰ کی  ناراضگی اور لعنت برستی رہتی ہے اور مسلمانوں کو ہر لمحہ رحمت الٰہی کے نزول  کی ضرورت ہے، اس لیے مسلمانوں کے قبرستان کو اس (کافروں کے دفن) سے پاک رکھا جائے۔ 

سوال نامہ کا اہم حصہ یہ ہے کہ اس علم کے باجود کہ مذکورہ شخص قادیانی، منکرِ حدیث اور کفریہ عقائد کا حامل تھا، معاذ اللہ اس کو مسلمان سمجھا اور مسلمان سمجھ کر ہی اس کا جنازہ پڑھا تو ان تمام لوگوں کو جو جنازے میں شریک ہوں گے، ان سب پر کفر کا حکم ہوگا، کیونکہ ایک مرتد کے عقائد کو اسلام سمجھنا کفر ہے، اس لیے ایسے لوگوں کا ایمان جاتا رہے گا، اور ان پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہوں تو تجدیدِ نکاح لازم ہوگا۔ (4) اور اگر لوگوں نے اس کے کفریہ عقائد کو غلط سمجھتے ہوئے اس کی تدفین اور نماز جنازہ میں شرکت کی ہے تب بھی یہ ناجائز اور حرام کام ہوا جس کی وجہ سے ان پر توبہ و استغفار لازم ہے۔


1) وَمَنْ أَنْكَرَ الْمُتَوَاتِرَ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ أَنْكَرَ الْمَشْهُورَ يَكْفُرُ عِنْدَ الْبَعْضِ۔(الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٦٥)

وقال العلامۃ القرطبی رحمة اللہ علیہ فی تفسیرہ تحت قولہ تعالیٰ (وماینطق عن الھوی) وفیہ ایضا دلالة علی ن السنة کالوحی المنزل فی العمل (تفسیر قرطبی : ٨٥١٧)

2) فنقول لایصلی علی الکافر لان الصلاة علی المیت دعاء واستغفار لہ والاستغفار للکافر حرام۔ (المحیط البرھانی : ٣/٨٢)

(قَوْلُهُ وَشَرْطُهَا إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) فَلَا تَصِحُّ عَلَى الْكَافِرِ لِلْآيَةِ {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84]۔ (البحرالرائق : ٢/١٩٣)

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَشَرْطُهَا) أَيْ شَرْطُ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ (إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) أَمَّا الْإِسْلَامُ فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84] يَعْنِي الْمُنَافِقِينَ، وَهُمْ الْكَفَرَةُ؛ وَلِأَنَّهَا شَفَاعَةٌ لِلْمَيِّتِ إكْرَامًا لَهُ وَطَلَبًا لِلْمَغْفِرَةِ، وَالْكَافِرُ لَا تَنْفَعُهُ الشَّفَاعَةُ، وَلَا يَسْتَحِقُّ الْإِكْرَامَ۔ (تبیین الحقائق : ١/٢٣٩)

3) والمرتد إذا قتل یحفرلہ حفیرۃ، ویلقي فیہا کالکلب، ولایدفع إلی من انتقل إلی دینہم لیدفنوہ۔ (الدر مع الرد : ۳/۱۳۴)

4) مَنْ اعْتَقَدَ الْحَرَامَ حَلَالًا، أَوْ عَلَى الْقَلْبِ يَكْفُرُ أَمَّا لَوْ قَالَ لِحَرَامٍ: هَذَا حَلَالٌ لِتَرْوِيجِ السِّلْعَةِ، أَوْ بِحُكْمِ الْجَهْلِ لَا يَكُونُ كُفْرًا، وَفِي الِاعْتِقَادِ هَذَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ، وَهُوَ يَعْتَقِدُهُ حَلَالًا حَتَّى يَكُونَ كُفْرًا أَمَّا إذَا كَانَ حَرَامًا لِغَيْرِهِ، فَلَا وَفِيمَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ إنَّمَا يَكْفُرُ إذَا كَانَتْ الْحُرْمَةُ ثَابِتَةً بِدَلِيلٍ مَقْطُوعٍ بِهِ أَمَّا إذَا كَانَتْ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ، فَلَا يَكْفُرُ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شعبان المعظم 1446

2 تبصرے:

  1. مکرمی مفتی صاحب نے ہماری صحیح رہنمائی فرمائی ہے۔
    ہمارے بہت سے احباب نے جب اس شخص کے انتقال کی خبر سنی تو دعائیہ کلمات کہنے لگے۔ اور مغفرت کی دعاء کرنے لگے۔
    ایسے منکر ختمِ نبوت کے لئے کوئی ہمدردی وغم خواری نہیں ہونی چاہئے ۔
    اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو کامل ایمان و کمل عقیدہ نصیب فرمائے ۔
    اور مفتی موصوف کو جزائے خیر عطاء فرمائے ۔
    آمین یارب العالمین ۔

    جواب دیںحذف کریں