بدھ، 29 جنوری، 2025

انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا قہر

   خدارا اس سے نجات دلا دیجیے 

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کہا جاتا ہے کہ مالیگاؤں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں کے سرکاری درباری کام کاج پہلے تو ہوتے نہیں، اگر ہوں بھی تو انتہائی سست رفتاری، غفلت اور غیرمعیاری طرز کے ہوتے ہیں۔ فی الحال انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا کام جاری ہے، نئی پرانی بنی ہوئی سڑکوں کو کھود کر پائپ ڈالے جارہے ہیں۔ اور یہ کام بغیر کسی منصوبہ بندی اور ترتیب کے انتہائی لاپروائی اور سُست رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔

 پہلی بات تو یہی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ  یہ انڈر گراؤنڈ گٹر ہے یا سنڈاس کے پائپ؟ کیوں کہ اس کے پائپ کی سائز پانچ چھ انچ ہے یہ ڈرینج، گٹر اور نالی کا کام تو بالکل نہیں کرسکتا۔ کیوں ہمارے یہاں جس حساب سے کچرے اور ڈائپر گٹروں میں ڈالے جاتے ہیں یہ پائپ پہلے ہی دن چوکپ ہوجائیں گے اور کئی سو کروڑ کی یہ اسکیم فیل ہوجائے گی۔

اندھیر تو اس وقت ہورہی ہے جب یہی کام ندی کے اُس پار ہوتا ہے تو وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد گڑھوں کو فوراً ڈامر یا سمنٹ سے برابر کردیا جاتا ہے۔ لیکن ندی کے اِس پار جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد مزدور یہاں کے ذمہ داروں کی بے حسی، غفلت اور لاپروائی کا قبر نما نشان بناکر نکل لیتے ہیں گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ بھُگتو کیڑے مکوڑو ! تم انسان تو ہو نہیں کہ تمہیں درد اور تکلیف ہو، نہ ہی تم میں اپنی تکلیف بتانے کے لیے زبان ہے، نہ تمہارے پاس ایسے لیڈر ہیں جو تمہاری تکلیفوں کا ازالہ کرسکیں۔ 

اس کھدائی اور سڑکوں کو برابر نہ کرنے کی وجہ سے پورا شہر دھول میں اَٹا ہوا ہے، ہر وقت شہر کہرے میں نظر آتا ہے۔ دو چار کلومیٹر بندہ شہر میں گھوم کر جب گھر پہنچتا ہے تو دھول سے اس کی حالت قریب قریب چکی میں کام کرنے والے شخص جیسی ہی ہوجاتی ہے۔ دھول سے الرجی والے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اور جن کو دھول سے تکلیف نہیں تھی وہ بھی مسلسل دھول سے بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کی بے ترتیبی کی وجہ سے غریب عوام کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب پائپ لائن بچھانے کے لیے سڑکیں کھودی جاتی ہے تو گھروں میں جانے والے نل کے پائپ توڑ دئیے جاتے ہیں، اور کہیں نلوں میں گٹروں کا گندا پانی آنے لگتا ہے اور اسے درست کرنے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے، غریب عوام کو مجبوراً ہزاروں روپے لگاکر اسے درست کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بڑا تکلیف دہ کام ہے۔

ابھی کل کی ہی بات ہے کہ مغرب کے مجھے سلیمانی مسجد کے پاس سے کوہ نور مسجد جانا تھا جس کا فاصلہ بائک پر دو منٹ ہے۔ لیکن مجھے یہاں پہنچنے کے لئے پندرہ منٹ لگ گئے۔ یہی روڈ کھود کھاد کے چکر میں ہر جگہ لمبا لمبا ٹرافک لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجھے پورا گھوم کر تین قندیل کے پاس سے چھوٹا قبرستان ہوتے ہوئے کوہ نور مسجد پہنچنا پڑا۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ میں نماز سے کافی پہلے ہی نکل گیا تھا، ورنہ مغرب کی نماز میری ٹرافک میں ہوجاتی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام کس درجہ کی مصیبتوں کا سامنا ہے؟

یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ کسی شہر میں نہیں بلکہ جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں کسی کی کوئی سنوائی نہیں ہے، کارپوریشن اور وہاں کے انجینئرس کو فون کرنے والے فکرمند احباب کو بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی ان سخت تکالیف کے ازالے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں تو انہیں ضرور کرنا چاہیے، اس لیے کہ شہریان فی الحال بہت زیادہ تکلیف میں ہیں، اور کسی کو تکلیف سے نجات دینا بڑا صدقہ اور نیکی کا کام ہے۔

اخیر میں دعا کے بجائے شہر کو کباڑ خانے میں تبدیل کرنے کا جو بھی کسی بھی درجہ میں ذمہ دار ہے میں بددعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ضرور عذاب میں مبتلا کرے تاکہ اس کی حالت دیکھ کر دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو اور وہ اس کام سے دور رہیں۔ آمین یا مجیب المضطرین

آپ سب بھی بد دعا کرسکتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، اور ایسے حالات میں جب کہ کسی کے ذریعہ قومی وملی نقصان ہو تو ایسے شخص کے شر سے بچنے کے لئے اُس کے حق میں بد دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

 

7 تبصرے:

  1. آمین ثم آمین یا رب العالمین

    واقعی مفتی صاحب
    میرے دل کی گہرائی سے بھی متعدد مرتبہ بددعائیں نکلی ہیں، میرے والد بزرگوار کو انہی گڑھوں کے باعث منکے کے گیپ کی شکایت ہوگئی ہے بڑی تکلیف اور بڑا خرچ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

    حکیم صاحب نے کہا کہ " مولانا! اس وقت کی مالیگاؤں کی عوام کو آئندہ اسی بیماری کو سب سے زیادہ سامان کرنا پڑے گا کیا کریں مالیگاؤں کی قسمت ہی خراب ہے۔"

    نعیم الرحمن ندوی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اس کی شروعات میں سے کرنا جوگا.
      کھیں نا کھیں ھم لوگ بھی غلطی کرتے ہیں. ایسا نہ ہو کہ ھم اپنی ھی بددعا کے شکار نہ ہو جائے

      حذف کریں
    2. مفتی صاحب....

      شہر میں جس انداز میں سیاسی و تعمیری معاملات پہنچ چکے ہیں...اور اب چونکہ عوامی تکالیف کی وجہ سے ہدایت کی دعاؤں کے بجائے اب بدعا تک معاملہ جا چکا ہے اور پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے تو اب اس کو دیکھتے ہوئے برائی کو صرف دل میں برا سمجھنے کے بجائے اب آپ جیسے مخلصین کو شہر کے حق میں قلم کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی اور عمل سے بھی اقدامات کرنا ضروری ہوگیا ہے.! اب چونکہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے اس لیے اب آپ صرف تحریری احتجاج یا تحریری اصلاح کی بجائے اب کھلے طور پر نا اہلوں کا سامنا کریں اور اگر کوئی قابل نظر آتا ہے تو اچھوں کا بھی ساتھ دیں.. کارپوریشن الیکشن آرہا ہے اس وقت اب آپ کی جانب سے نا اہلوں کے خلاف موثر نمائندگی کی ضرورت ہے... کھلے طور پر آپ نام بنام مخالفت کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں

      حذف کریں
    3. اگر مفتی عامر عثمانی صاحب اس میدان میں آگئے تو شہر کے اندھ بھکت انہیں اپنے سیاسی لیڈر (جو نام نہاد تعمیرات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے)کا مخالف سمجھ کر وہ طوفان بد تمیزی کھڑا کریں گے کہ اللہ کی پناہ ، ایسا نظارہ شہر کی عوام نے ایک بار پہلے ہی دیکھ چکا ہے آپ انہیں جہاں ہیں وہیں رہنے دیں ہم اس معاملے میں کیا کر سکتے ہیں ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے شہر کے اندھ بھکت سیاسی ورکر صحیح غلط سے پرے صرف اپنے سیاسی لیڈر کی اچھائی سننا چاہتے ہیں حال یہ ہو گیا ہے کہ جہاں شہر کے ایک مفتی کھنڈر بن گئے شہر کے ذمے داروں کو بد دعا دینے پر مجبور ہو گئے ہیں تو وہیں دوسرے مفتی شہر میں نام نہاد تعمیرات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں

      حذف کریں
  2. الیکشن کے دور میں چینخ چینخ کے کہا جارہا تھا کہ لیڈر تعمیر و ترقی والا چنو مذہب کے نام پر نہیں لیکن کچھ لوگوں کو اچھائی اور برائی کی چل مچی ہوئی تھی اب بھکتو اندھ بھکتوں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بندر کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے اب بھکتو

      حذف کریں