سوال :
مفتی صاحب ! ایک جنازے میں مٹی دینے کے لئے جانا ہوا۔ ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ جنازے کے ساتھ مرحوم کے سر کے پاس ایک بوسیدہ قرآن شریف رکھا گیا اور پھر تدفین کا عمل مکمل کیا گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مرحوم اپنی پوری زندگی یہی قرآن شریف کی تلاوت کیے ہیں۔ تو اسی لیے اس قرآن شریف کو اُن کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔ تو کیا یہ عمل درست ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام بالخصوص مشہور حنفی فقیہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآنی آیتیں اور دعائیں کفن کے اوپر لکھنا سخت بے ادبی ہے۔ اور جنہوں نے کفن پر لکھنے پر قیاس کیا ہے یہ قیاس ممنوع اور ساقط الاعتبار ہے، کیوں کہ جب میت کی ہڈی، گوشت گل جائیں گے، تو قرآن کی آیت اور دعاؤں کے الفاظ نجاستوں کے ساتھ ملوث ہوجائیں گے، یہ قطعاً درست نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قرآن مجید میت کے ساتھ قبر میں رکھنا ایک ناجائز عمل ہوا، اس پر ندامت شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
وَقَدْ أَفْتَى ابْنُ الصَّلَاحِ بِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَى الْكَفَنِ يس وَالْكَهْفُ وَنَحْوُهُمَا خَوْفًا مِنْ صَدِيدِ الْمَيِّتِ وَالْقِيَاسُ الْمَذْكُورُ مَمْنُوعٌ لِأَنَّ الْقَصْدَ ثَمَّ التَّمْيِيزُ وَهُنَا التَّبَرُّكُ، فَالْأَسْمَاءُ الْمُعَظَّمَةُ بَاقِيَةٌ عَلَى حَالِهَا فَلَا يَجُوزُ تَعْرِيضُهَا لِلنَّجَاسَةِ، وَالْقَوْلُ بِأَنَّهُ يُطْلَبُ فِعْلُهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ مِثْلَ ذَلِكَ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلَّا إذَا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - طَلَبُ ذَلِكَ وَلَيْسَ كَذَلِكَ۔ (شامی : ۲/ ۲۴۶)
الاستفسار : قد تعارف في بلادنا أنہم یلقون علی قبر الصلحاء ثوباً مکتوباً فیہ سورۃ الإخلاص، ہل فیہ بأس؟
الاستبشار : ہو استہانۃ بالقرآن ؛ لأن ہٰذا الثوب إنما یلقی تعظیماً للمیت ویصیر ہٰذا الثوب مستعملاً مبتذلاً، وابتذال کتاب اللّٰہ من أسباب عذاب اللّٰہ۔ (نفع المفتي والسائل ۴۰۳ دار ابن حزم، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۸؍۵۳۶ ڈابھیل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رجب المرجب 1446
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں