جمعرات، 2 جنوری، 2025

مسجد میں جمعہ کا چندہ اور ہمارے نوجوان

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
                    (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! برِصغیر ہندوپاک وغیرہ میں مساجد کی تعمیر اور ان کے اخراجات کی تکمیل مسلمانوں کی حلال کمائی سے ہوتی ہے۔ اور مسلمان اسے بحسن وخوبی ادا کررہے ہیں اور اسے اپنے لیے دارین کی سعادت سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ ایسا ہی ہے کہ قرآن وحدیث میں مسجد کی تعمیر اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۱)

ترجمہ : جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

دوسری جگہ ہے :
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۵)

ترجمہ : ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ 

مسجد کی تعمیر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ : جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)

مذکورہ بالا فضائل کو بار بار سننے اور پڑھنے کے باوجود فی الحال نوجوان نسل اس سلسلے میں بڑی غیرذمہ داری اور کوتاہی کا ثبوت دیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنے روزمرہ کے شوق گٹکا، تمباکو، بیڑی، سگریٹ، پان اور چائے وغیرہ میں ایک دن کے حساب سے سو روپے تک خرچ کررہے ہیں، اور یہ رقم ہفتہ واری پانچ سے سات سو تک تجاوز کررہی ہے۔ لیکن یہی نوجوان اپنے محلہ کی مسجد اور جہاں یہ لوگ نماز جمعہ ادا کرتے وہاں انہیں معمولی سی رقم بیس روپے تک دینا گوارا نہیں ہورہا ہے۔ حالات کا جائزہ لینے والے فکرمند افراد بتاتے ہیں کہ صف کی صف نکل جاتی ہے اور کوئی چندہ دینے والا نہیں ہوتا۔ ایک بڑی تعداد تو سلام پھیرتے ہی سیدھے دروازے کی طرف لپکتی ہے کہ ان کو دعا اور فرض کے بعد کی تاکیدی سنت اور مسجد کے تعاون سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اور جو دعا کے لیے رُکتے بھی ہیں تو ان میں سے بہت سے لوگ اپنا ہاتھ تعاون کے لیے روکے رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت ساری مساجد میں اخراجات کی تکمیل یعنی بجلی، پانی، صاف صفائی اور امام ومؤذن حضرات کی تنخواہ کے لیے قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے جو بڑی تشویش کی بات ہے۔

لہٰذا ایسے حالات میں ہر شخص کو بطور خاص جمعہ کی نماز میں مسجد کے تعاون کے لئے بالکل آخری درجہ میں بیس روپے تو لے جانا ہی چاہیے، اور پھر اس سے زیادہ جس کی استطاعت ہو وہ ضرور مسجد کا تعاون کرے، یہ عمل آپ کی آخرت کو سنوارنے کے ساتھ آپ کی روزی میں برکت، بیماریوں، بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹالنے کا سبب ہوگا۔ ان شاء اللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مساجد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین 

1 تبصرہ: