سوال :
مفتی صاحب ! مزاراتِ اولیاء پر چادر چڑھانا کیا بدعت نہیں ہے؟ اور کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جعل فی قبر رسول اللہﷺ قطيفة حمراء سے مزار پر چادر چڑھانا ثابت ہوسکتا ہے؟ ایک صاحب کا کہنا ہے مزار پر چادر چڑھا سکتے میری پاس اس کی دلیل ہے میرے حساب سے دلیل وہی اوپر مذکور روایت ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہےکہ ولیوں کی قبروں کا امتیاز ہونا مقصود ہوتا ہے اس لیے چادر چڑھانے کی گنجائش ہے۔ کیا شریعت کی روشنی میں یہ خیال صحیح ہے؟
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبروں پر چادر چڑھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت، مکروہِ تحریمی اور ناجائز عمل ہے۔
سوال نامہ میں جو روایت آپ نے لکھی ہے وہ مسلم شریف میں موجود ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی قبر میں ایک سرخ لوئی (چادر) ڈالی گئی تھی۔
اس حدیث شریف کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ایک خادم تھے جن کا نام "شعران" تھا انہوں نے صحابہ کرام کی مرضی اور ان کی اجازت کے بغیر از خود اس چادر کو آنحضرت ﷺ کی قبر میں رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اسے قطعی ناپسند کرتا ہوں کہ جس چادر مبارک کو سرکار دو عالم ﷺ خود استعمال کر چکے ہوں اسے آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص استعمال کرے۔
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قبر میں یہ چادر رکھنا آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا (اب کسی دوسرے کے لئے اجازت نہیں کہ اس کی قبر میں چادر وغیرہ بچھائی جائے یا رکھی جائے) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں چادر رکھنے کے بارہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت عباس کے بارہ میں منقول ہے کہ ان دونوں نے شعران سے اس بات پر سخت مؤاخذہ کیا کہ انہوں نے وہ چادر قبر مبارک میں کیوں رکھی؟ نیز علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے تو " کتاب استیعاب" میں یہ لکھا ہے کہ " وہ لوئی (جو شعران نے آپ ﷺ کی قبر مبارک میں ڈالی تھی) مٹی ڈالنے سے پہلے قبر مبارک سے نکال لی گئی تھی۔ بہر حال علماء نے قبر میں مردہ کے نیچے کپڑا بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مال کا اسراف اور اس کا ضائع کرنا ہے۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث شریف میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ چادر قبر کے اندر رکھی گئی تھی، قبر کے اوپر چڑھائی نہیں گئی تھی۔ لہٰذا اس روایت کو قبر پر چادر چڑھانے کی دلیل بنانا جہالت اور حماقت ہے۔
اسی طرح علماء کرام اور بزرگانِ دین کی قبروں کے امتیاز کے لیے بھی چادر چڑھانے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے میت کی تعظیم اور قُرب جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ دونوں باتیں شرک کا ذریعہ ہیں۔ جبکہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں قبروں پر چراغ جلانے والے پر لعنت کی گئی ہے، اور علماء نے لعنت اور ممانعت کی حکمت اور مصلحت یہ بیان فرمائی ہے کہ قبروں پر چراغ جلانے میں بہت بڑا خطرہ قبر پرستی کا تھا، اس لیے شرک کا دروازہ بند کرنے کے لیے اس سے ممانعت فرمائی گئی۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٩٦٧)
(وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : «جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ») فِي النِّهَايَةِ: الْقَطِيفَةُ هِيَ كِسَاءٌ لَهُ خَمْلٌ وَهُوَ الْمُهَدَّبُ، وَمِنْهُ الْحَدِيثُ: «تَعِسَ عَبْدُ الْقَطِيفَةِ»، أَيِ: الَّذِي يَعْمَلُ لَهَا، وَيَهْتَمُّ بِتَحْصِيلِهَا. قَالَ النَّوَوِيُّ: وَهَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلًى مِنْ مَوَالِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَهُ ﷺ، وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ مِنَ الْفُقَهَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ الْقَطِيفَةِ وَالْمِخَدَّةِ وَنَحْوِهِمَا تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ، وَقِيلَ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَوَاصِّهِ ﷺ فَلَا يَحْسُنُ فِي غَيْرِهِ اهـ. وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ نَقْلًا عَنْ وَكِيعٍ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصِهِ ﷺ. قَالَ التُّورِبِشْتِيُّ: وَذَلِكَ أَنَّهُ ﷺ كَمَا فَارَقَ أَهْلَ الدُّنْيَا فِي بَعْضِ أَحْكَامِ حَيَاتِهِ فَارَقَهُمْ فِي بَعْضِ أَحْكَامِ مَمَاتِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ، وَحَقَّ لِجَسَدٍ عَصَمَهُ اللَّهُ عَنِ الْبِلَى وَالِاسْتِحَالَةِ أَنْ يُفْرَشَ لَهُ فِي قَبْرِهِ ; لِأَنَّ الْمَعْنَى الَّذِي يُفْرَشُ لِلْحَيِّ لَهُ لَمْ يَزَلْ عَنْهُ ﷺ بِحُكْمِ الْمَوْتِ، وَلَيْسَ الْأَمْرُ فِي غَيْرِهِ عَلَى هَذَا النَّمَطِ اهـ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَنَازَعَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ فَقَصْدُ شُقْرَانَ بِوَضْعِهَا دَفَعَ ذَلِكَ. ذَكَرَهُ ابْنُ حَجَرٍ، وَهُوَ بَعِيدٌ جِدًّا، وَقَالَ الشَّيْخُ الْعِرَاقِيُّ فِي أَلْفِيَّتِهِ فِي السِّيرَةِ: وَفُرِشَتْ فِي قَبْرِهِ قَطِيفَةٌ وَقِيلَ أُخْرِجَتْ، وَهَذَا أَثْبَتُ، وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى مَا قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِيعَابِ: إِنَّهَا أُخْرِجَتْ قَبْلَ إِهَالَةِ التُّرَابِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ. (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٣/١٢١٥)
قَوْلُهُ (جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ) هَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَجَمِيعُ أَصْحَابِنَا وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ قَطِيفَةٍ أَوْ مِضْرَبَةٍ أَوْ مِخَدَّةٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ وَشَذَّ عَنْهُمُ الْبَغَوِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا فَقَالَ فِي كِتَابهِ التَّهْذِيبِ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ لِهَذَا الْحَدِيثِ وَالصَّوَابُ كَرَاهَتُهُ كَمَا قَالَهُ الْجُمْهُورُ وَأَجَابُوا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّ شُقْرَانَ انْفَرَدَ بِفِعْلِ ذَلِكَ لَمْ يُوَافِقْهُ غَيْرُهُ مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا عَلِمُوا ذَلِكَ وَإِنَّمَا فَعَلَهُ شُقْرَانُ لِمَا ذَكَرْنَاهُ عَنْهُ مِنْ كَرَاهَتِهِ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَلْبَسُهَا وَيَفْتَرِشُهَا فَلَمْ تَطِبْ نَفْسُ شُقْرَانَ أَنْ يَسْتَبْدِلَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَخَالَفَهُ غَيْرُهُ فروى البيهقي عن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُجْعَلَ تَحْتَ الْمَيِّتِ ثَوْبٌ فِي قَبْرِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔ (شرح النووی : ٧/٣٤)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٢٣٦)
قَالَ فِي فَتَاوَى الْحُجَّةِ وَتُكْرَهُ السُّتُورُ عَلَى الْقُبُورِ۔ (شامی : ٦/٣٦٣)
اتفق الخطابي و الطرطوشي و القاضي عیاض علی المنع، وقولہم أولیٰ بالاتباع حیث أصبح مثل تلك المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرۃ و الفتن السائرۃ، فتری العامة یلقون الزهور علی القبور۔ (معارف السنن : ٢٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1446