چند ہدایات اور گزارشات
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور )
قارئین کرام ! جیسا کہ ہم سب کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ شہر عزیز مالیگاؤں میں مکاتب کا جال بچھا ہوا ہے۔ تقریباً ہر محلے میں ایک منظم مکتب موجود ہے، جہاں قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم سے قرآن مجید کے حفظ تک کا معقول نظم موجود ہے۔ اور یہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں حفظ قرآن کی دولت بے بہا سے مالا مال ہوکر نکل رہے ہیں۔
حافظ ہونے والے طلباء وطالبات کے والدین اس خوشی میں دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض والدین بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض چھوٹی اور اور بعض بالکل نہیں کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، استطاعت نہیں ہے تو اس کے لیے قرض لینے یا بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ مشاہدہ ہورہا ہے کہ ان معاملات میں بعض قباحتیں در آرہی ہیں جن کے سدباب کے لیے یہ مضمون لکھا جارہا ہے۔
معاملات اس طرح ہیں کہ حفظ کی تکمیل کرنے والے طلباء وطالبات پہلے اپنے حفظ کے استاذ کے ساتھ پوری کلاس اور پورے اسٹاف کے لیے مٹھائی کا نظم کرتے ہیں، بلاشبہ یہ چیز مزدور طبقہ کے لیے مشکل بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتی ہے۔
اس کو آسان اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ صرف حفظ کے استاذ یا جن اساتذہ کے پاس اس طالب علم نے قاعدہ اور قرآن مجید پڑھا ہے صرف انہیں اساتذہ کو مٹھائی دی جائے۔ دس سے لے کر بیس، تیس اساتذہ کے اسٹاف کو دیڑھ دو سو والا مٹھائی کا ڈبہ دینا ضروری نہیں ہے۔
بعض مکاتب سے اس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہاں حفاظ یا حافظات مل کر پہلے پورے اسٹاف کو دعوت دیتے ہیں جن کی تعداد پندرہ، بیس سے زائد ہوسکتی ہیں، پھر سب اکیلے اکیلے پورے اسٹاف کی دعوت کرتے ہیں، اس طرح اگر تیس حافظ یا حافظات ہیں تو پورے مہینے دعوت چلے گی۔ پھر حفاظ یا حافظات پر یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ تمام حفاظ یا حافظات کے لیے تحفے کا نظم کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان سارے انتظامات میں ایک بہت بڑی رقم خرچ ہوگی جو مزدور طبقہ کی کمر توڑ دینے والی ہے اور عموماً ایسے ہی گھرانے کے بچے بچیاں حفظ کرتے ہیں۔
دعوتوں اور تحائف کے اہتمام میں بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ صرف حفظ کے استاذ کو تحفہ دیا جائے، اگر استطاعت ہوتو دعوت میں حافظ/حافظہ کے حفظ کے استاذ کے ساتھ قاعدہ اور قرآن مجید کے استاذ کو بھی مدعو کرلیا جائے، اور اگر مزید استطاعت ہے اور بڑا انتظام کیا جارہا ہے تو پھر اسٹاف کو مدعو کیا جائے۔
دوسری طرف بعض والدین بڑے بڑے ہال بُک کروا کر بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں جس میں پچاس ہزار سے دیڑھ دو لاکھ تک خرچ کردیتے ہیں، لیکن اس بچے پر چار، پانچ یا پھر چھ سال تک سخت محنت کرنے والے استاذ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں، جب کہ وہ اکرام اور حوصلہ افزائی کا زیادہ حق دار ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعوت میں ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کردینے سے آپ کو وہ ثواب نہیں ملے گا جو حافظ کے استاذ کی مالی خدمت کرنے پر ملے گا۔ اور اگر یہ دعوتیں ریاکاری اور نام ونمود کے لیے ہورہی ہیں تو یہ آپ کے لیے بروزِ حشر وبال بن جائیں گی۔
امید ہے کہ مکاتب اور مدارس کے اساتذہ، ذمہ داران اور سرپرست حضرات ان باتوں پر توجہ فرماکر عمل فرمائیں گے اور اپنے آپ کو بے جا مشکلات میں ڈالنے سے پرہیز فرمائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ترجیحات سمجھنے اور اصل کرنے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںمضمون بالا میں تمام باتیں واقعی قابل غور و قابل عمل ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس و مکاتب کے نظما و ذمہ داران اگر اپنے اپنے اداروں میں مندرجہ بالا باتوں کو سامنے رکھتے ہوٸے کچھ اصول اور ضابطے بنالیں تو ان شاء اللہ ان قباحتوں سے بآسانی بچا جا سکتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمدارس و مکاتب میں ایسی باتوں کا درآنا واقعی بہت بڑا المیہ ہے ان باتوں سے بچنا بہت ضروری ہے