سوال :
مفتی صاحب حالات نشہ میں شوہر اگر بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مسیب خان، جنتور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شراب پینا سخت گناہ ہے، حدیث شریف میں اسے گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے، اور شراب بنانے والے، بنوانے والے، خریدنے والے، بیچنے والے، پینے والے، پلانے والے، اسے منتقل کرنے والے، حوالے کرنے والے ، الغرض شراب سے متعلق دس طرح کے لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے، اس لیے اس ام الخبائث سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
احناف کے نزدیک حرام چیزکے مثلاً شراب کے نشے میں زجرًا وتوبیخاً طلاق ہے تاکہ آئندہ وہ شراب کی عادت ترک کردے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو جائز وحلال چیز کے کھانے پینے سے نشہ آگیا اور اس حالت میں طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، اور چونکہ نشہ کی حالت میں عقل باقی رہتی اور وہ شریعت کے احکام کا مکلف ہوتا ہے اس لیے نشہ کی حالت میں اس کا نکاح کو قبول کرنا صحیح ہوگا، یعنی نشے کی حالت میں نکاح بھی صحیح ہوجاتا ہے۔ چنانچہ فتاوی قاضی خاں میں لکھا ہے، في باب الخلع، خلع السکران جائز وکذلک سائر تصرفاتہ إلا الردة والإقرار بالحدود والإشہاد علی شہادة نفسہ (خانیة مع الہندیة: ۱/۵۳۶) اور الاشباہ میں ہے : وقدمنا في الفوائد أنہ من محرم کالصاحي إلا في ثلث الردة والإقرار بالحدود الخالصة والإشہاد علی شہادة نفسہ (الأشباہ: ج۳/۳۷/رقم الفتوی : 46090)
معلوم ہوا کہ مفتی بہ قول کے مطابق سزا کے طور پر طلاق سکران یعنی نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ : نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، يَقُولُ: «إِنَّ رَجُلًا مِنْ آلِ الْبَخْتَرِيِّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهُوَ سَكْرَانُ فَضَرَبَهُ عُمَرُ الْحَدَّ وَأَجَازَ عَلَيْهِ طَلَاقَهُ»۔ (سنن سعید بن منصور، رقم : ۱۱۰۶)
وَطَلَاقُ السَّكْرَانِ وَاقِعٌ إذَا سَكِرَ مِنْ الْخَمْرِ أَوْ النَّبِيذِ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں