سوال :
محترم مفتی صاحب ! میں نے سنا ہے کہ اگر گھر میں بلی روتی ہے تو یہ کسی نقصان یا بری چیز کے ہونے کی نشانی یا اندیشہ ہوتا ہے۔ کیا اسلام میں اس بات کی کوئی حقیقت ہے یا یہ صرف ایک توہم پرستی ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً
(المستفتی : محمد اسماعیل، مالیگاؤں )
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گھروں میں یا اس کے آس پاس بلیوں کے رونے کے بعد کبھی کوئی مصیبت پیش آجائے یا کسی کا انتقال ہوجائے تو یہ صرف اتفاق کی بات ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ بلیوں کا رونا نحوست، مصیبت یا کسی کی موت کے آنے کی علامت اور نشانی ہے۔
بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : چھوت لگنا، بد شگونی لینا، الو کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں۔
مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فر یا : کسی سے کو ئی مرض خود بخود نہیں چمٹتا، نہ بد فالی کی کو ئی حقیقت ہے نہ صفر کی نحوست کی اور نہ کھوپڑی سے الو نکلنے کی۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ تمام چیزیں واہیات ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے، مسلمانوں کو ایسا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اسلام ایسی تمام چیزوں کی مخالفت کرتا ہے۔ (رقم الفتوی : 3129)
بلیوں کا رونا اپنے طبعی اور فطری تقاضے کے تحت ہوتا ہے، لہٰذا اس کے رونے کو منحوس سمجھنا توہم پرستی، بدعقیدگی اور گناہ کی بات ہے، جس سے بچنا اللہ کی ذات پر ایمان و توکل اور اعتقاد کا تقاضا ہے۔
قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)
سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٠٧)
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ»۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٢٠)
وکان القفّال یقول : فإن الأمور کلہا بید اللّٰہ، یقضي فیہا ما یشاء، ویحکم ما یرید، لا مؤخر لما قدّم ولا مقدّم لما أخّر۔ (۱۹/۲۰۳ ، خطبۃ ، خامسًا، الخُطبۃ قبل الخِطبۃ، الموسوعۃ الفھیۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں