جمعرات، 19 دسمبر، 2024

تبلیغی جماعت کی مجالس کی فضیلت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! تبلیغی جماعت کے احباب اپنی مجلس میں بیان کرتے ہیں کہ ایسی مجلس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان میں موجود لوگوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ براہ کرم اس کی تحقیق فرمادیں۔
(المستفتی : سعود احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل دو احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا : جب بھی کچھ لوگ بیٹھ کر کہیں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِالہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے، اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ ان کا اپنے ہاں کے لوگوں (فرشتوں) میں ذکر کرتا ہے۔ (١)

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔پھر وہ  آسمان دنیا تک اپنے پروں سے انہیں(ذاكرين) كو ڈھانپ لیتے ہیں۔پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی بیان کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ (حضور  صلي اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں : نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی زیادہ کرتے، تیری بڑائی اور زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ واللہ! انہوں نے تیری جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ حریص، خواہشمند اور سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، واللہ! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ : اس پر ان (فرشتوں) میں سے ایک فرشتہ نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ (٢)

ذکر کردہ احادیث میں مجالس سے مراد ہر وہ مجلس ہے جس کا انعقاد دین کی آبیاری اور اس کے مفاد کے لیے ہو، خواہ وہ درس وتدریس کے حلقے ہوں یا ذکر کی مجالس، یا پھر دعوت وتبلیغ کے حلقے۔ یہ تمام مجالس اور حلقے مجالس ِذکر میں شامل ہوں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے۔ (٣)

خلاصہ یہ کہ حدیث شریف میں مذکور فضائل تمام دینی مجالس کے لیے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کے حلقے بھی شامل ہیں، لیکن ان فضائل کو صرف تبلیغی جماعت کے حلقوں اور اس کی مجالس کے لیے خاص سمجھنا درست نہیں۔


١) حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقُ يُحَدِّثُ عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ ، أَنَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ : " لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٧٠٠)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ، يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ، تَنَادَوْا : هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ". قَالَ : " فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ". قَالَ : " فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ - وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ - مَا يَقُولُ عِبَادِي ؟ قَالُوا : يَقُولُونَ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : هَلْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " فَيَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ، مَا رَأَوْكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَمَا يَسْأَلُونِي ؟ ". قَالَ : " يَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً ". قَالَ : " فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : مِنَ النَّارِ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ". قَالَ : " فَيَقُولُ : فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ". قَالَ : " يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ : فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ : هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٤٠٨)

٣) الْمُرَادُ بِمَجَالِسِ الذِّكْرِ وَأَنَّهَا الَّتِي تَشْتَمِلُ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ بِأَنْوَاعِ الذِّكْرِ الْوَارِدَةِ مِنْ تَسْبِيحٍ وَتَكْبِيرٍ وَغَيْرِهِمَا وَعَلَى تِلَاوَةِ كِتَابِ اللَّهِ ﷾ وَعَلَى الدُّعَاءِ بِخَيْرَيِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَفِي دُخُولِ قِرَاءَةِ الْحَدِيثِ النَّبَوِيِّ وَمُدَارَسَةِ الْعِلْمِ الشَّرْعِيِّ وَمُذَاكَرَتِهِ وَالِاجْتِمَاعِ عَلَى صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِي هَذِهِ الْمَجَالِسِ نَظَرٌ وَالْأَشْبَهُ اخْتِصَاصُ ذَلِكَ بِمَجَالِسِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَنَحْوِهِمَا وَالتِّلَاوَةِ حَسْبُ وَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَةُ الْحَدِيثِ وَمُدَارَسَةُ الْعِلْمِ وَالْمُنَاظَرَةُ فِيهِ مِنْ جُمْلَةِ مَا يَدْخُلُ تَحْتَ مُسَمَّى ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى۔ (فتح الباری : ١١/١١٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 جمادی الآخر 1446

1 تبصرہ: