سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و شرعی متین اس عمومی مسئلہ یا سوچ کے بارے میں کہ شریعت میں کتے کو انتہائی نجس کیوں قرار دیا گیا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالواجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کتا نجس العین نہیں ہے۔ یعنی کتے کا بدن ناپاک نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے بدن سے کسی کا کپڑا یا بدن چھو جائے تو کپڑا یا بدن ناپاک نہ ہوگا، البتہ اس کا لعاب ناپاک ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
خشک کتا جسم یا کپڑوں سے لگ جائے تو اس کی وجہ سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوتا جب ناپاک ہونے کا حکم نہیں تو نہ ایک مرتبہ دھونا واجب ہے نہ سات وفعہ؛ البتہ اگر اس پر نجاست لگی ہو یا اس کا لعاب لگ جائے تو جسم یا کپڑا تین دفعہ دھولیں گے تو پاک ہو جائے گا اگر کپڑے پر لعاب کتے کا لگ جائے تو لعاب والے حصہ کو تین دفعہ دھوکر دوسرے کپڑوں میں ملا کر دھونا چاہئے۔ (رقم الفتوی : 172588)
علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
کتا باعتبار اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چناں چہ اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے۔ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے، اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدتِ حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے، اور جب اس کی طرف پتھرپھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے، الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نسبت حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا۔ پس جب کتے کے ایسے اوصافِ مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھاتا ہے وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا، اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفاتِ خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بُعد (دوری) اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے، اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں : ۲۸۵، ۲۸۶)
معلوم ہوا کہ کتا انتہائی نجس بلکہ نجس بھی نہیں ہے۔ البتہ اس کا لعاب نجس اور ناپاک ہے۔ اور اس کے اندر موجود درج بالا خرابیوں اور بری عادتوں کی بناء پر اس کو گھر میں رکھنے اور اس کے اختلاط سے منع کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، وَمَعَ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عُبَيْدُ اللَّهِ الْخَوْلَانِيُّ الَّذِي كَانَ فِي حَجْرِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمَا زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٣٢٢٦)
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ حَفْصٌ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ ". وَقَالَا عَنْ سُلَيْمَانَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ قِيدُ آخِرَةِ الرَّحْلِ : الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ ". فَقُلْتُ : مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ ؟ فَقَالَ : يَا ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ : " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ "۔(سنن ابی داؤد، رقم : ٧٠٢)
وَسُؤْرُ الْكَلْبِ وَالْخِنْزِيرِ وَسِبَاعِ الْبَهَائِمِ نَجَسٌ. كَذَا فِي الْكَنْزِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1446