جمعہ، 20 دسمبر، 2024

کتے کے نجس ہونے کا مطلب؟


سوال :

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و شرعی متین اس عمومی مسئلہ یا سوچ کے بارے میں کہ شریعت میں کتے کو انتہائی نجس کیوں قرار دیا گیا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالواجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کتا نجس العین نہیں ہے۔ یعنی کتے کا بدن ناپاک نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے بدن سے کسی کا کپڑا یا بدن چھو جائے تو کپڑا یا بدن ناپاک نہ ہوگا، البتہ اس کا لعاب ناپاک ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
خشک کتا جسم یا کپڑوں سے لگ جائے تو اس کی وجہ سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوتا جب ناپاک ہونے کا حکم نہیں تو نہ ایک مرتبہ دھونا واجب ہے نہ سات وفعہ؛ البتہ اگر اس پر نجاست لگی ہو یا اس کا لعاب لگ جائے تو جسم یا کپڑا تین دفعہ دھولیں گے تو پاک ہو جائے گا اگر کپڑے پر لعاب کتے کا لگ جائے تو لعاب والے حصہ کو تین دفعہ دھوکر دوسرے کپڑوں میں ملا کر دھونا چاہئے۔ (رقم الفتوی : 172588)

علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
کتا باعتبار اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چناں چہ اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے۔ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے، اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدتِ حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے، اور جب اس کی طرف پتھرپھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے، الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نسبت حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا۔ پس جب کتے کے ایسے اوصافِ مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھاتا ہے وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا، اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفاتِ خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بُعد (دوری) اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے، اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں : ۲۸۵، ۲۸۶)

معلوم ہوا کہ کتا انتہائی نجس بلکہ نجس بھی نہیں ہے۔ البتہ اس کا لعاب نجس اور ناپاک ہے۔ اور اس کے اندر موجود درج بالا خرابیوں اور بری عادتوں کی بناء پر اس کو گھر میں رکھنے اور اس کے اختلاط سے منع کیا گیا ہے۔
 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، وَمَعَ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عُبَيْدُ اللَّهِ الْخَوْلَانِيُّ الَّذِي كَانَ فِي حَجْرِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمَا زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٣٢٢٦)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ حَفْصٌ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ ". وَقَالَا  عَنْ سُلَيْمَانَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ قِيدُ آخِرَةِ الرَّحْلِ : الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ ". فَقُلْتُ : مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ ؟ فَقَالَ : يَا ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ : " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ "۔(سنن ابی داؤد، رقم : ٧٠٢)

وَسُؤْرُ الْكَلْبِ وَالْخِنْزِيرِ وَسِبَاعِ الْبَهَائِمِ نَجَسٌ. كَذَا فِي الْكَنْزِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1446

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

تبلیغی جماعت کی مجالس کی فضیلت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! تبلیغی جماعت کے احباب اپنی مجلس میں بیان کرتے ہیں کہ ایسی مجلس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان میں موجود لوگوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ براہ کرم اس کی تحقیق فرمادیں۔
(المستفتی : سعود احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل دو احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا : جب بھی کچھ لوگ بیٹھ کر کہیں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِالہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے، اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ ان کا اپنے ہاں کے لوگوں (فرشتوں) میں ذکر کرتا ہے۔ (١)

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔پھر وہ  آسمان دنیا تک اپنے پروں سے انہیں(ذاكرين) كو ڈھانپ لیتے ہیں۔پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی بیان کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ (حضور  صلي اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں : نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی زیادہ کرتے، تیری بڑائی اور زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ واللہ! انہوں نے تیری جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ حریص، خواہشمند اور سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، واللہ! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ : اس پر ان (فرشتوں) میں سے ایک فرشتہ نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ (٢)

ذکر کردہ احادیث میں مجالس سے مراد ہر وہ مجلس ہے جس کا انعقاد دین کی آبیاری اور اس کے مفاد کے لیے ہو، خواہ وہ درس وتدریس کے حلقے ہوں یا ذکر کی مجالس، یا پھر دعوت وتبلیغ کے حلقے۔ یہ تمام مجالس اور حلقے مجالس ِذکر میں شامل ہوں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے۔ (٣)

خلاصہ یہ کہ حدیث شریف میں مذکور فضائل تمام دینی مجالس کے لیے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کے حلقے بھی شامل ہیں، لیکن ان فضائل کو صرف تبلیغی جماعت کے حلقوں اور اس کی مجالس کے لیے خاص سمجھنا درست نہیں۔


١) حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقُ يُحَدِّثُ عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ ، أَنَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ : " لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٧٠٠)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ، يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ، تَنَادَوْا : هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ". قَالَ : " فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ". قَالَ : " فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ - وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ - مَا يَقُولُ عِبَادِي ؟ قَالُوا : يَقُولُونَ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : هَلْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " فَيَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ، مَا رَأَوْكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَمَا يَسْأَلُونِي ؟ ". قَالَ : " يَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً ". قَالَ : " فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : مِنَ النَّارِ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ". قَالَ : " فَيَقُولُ : فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ". قَالَ : " يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ : فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ : هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٤٠٨)

٣) الْمُرَادُ بِمَجَالِسِ الذِّكْرِ وَأَنَّهَا الَّتِي تَشْتَمِلُ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ بِأَنْوَاعِ الذِّكْرِ الْوَارِدَةِ مِنْ تَسْبِيحٍ وَتَكْبِيرٍ وَغَيْرِهِمَا وَعَلَى تِلَاوَةِ كِتَابِ اللَّهِ ﷾ وَعَلَى الدُّعَاءِ بِخَيْرَيِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَفِي دُخُولِ قِرَاءَةِ الْحَدِيثِ النَّبَوِيِّ وَمُدَارَسَةِ الْعِلْمِ الشَّرْعِيِّ وَمُذَاكَرَتِهِ وَالِاجْتِمَاعِ عَلَى صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِي هَذِهِ الْمَجَالِسِ نَظَرٌ وَالْأَشْبَهُ اخْتِصَاصُ ذَلِكَ بِمَجَالِسِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَنَحْوِهِمَا وَالتِّلَاوَةِ حَسْبُ وَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَةُ الْحَدِيثِ وَمُدَارَسَةُ الْعِلْمِ وَالْمُنَاظَرَةُ فِيهِ مِنْ جُمْلَةِ مَا يَدْخُلُ تَحْتَ مُسَمَّى ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى۔ (فتح الباری : ١١/١١٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 جمادی الآخر 1446

منگل، 17 دسمبر، 2024

عشاء کی رکعتوں کی تعداد اور ان کا ثبوت ؟


سوال :

مفتی صاحب ! نماز عشاء میں فرض، واجب اور سنن ونوافل کی رکعتوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا اس میں کوئی رکعت بے بنیاد ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عشاء کی چار رکعت فرض سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ کا ثبوت درج ذیل حدیث شریف سے ملتا ہے۔ 

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریمﷺنے تین مرتبہ یہ اِرشاد فرمایا : ہر دو اذانوں یعنی اذان و اِقامت کے درمیان نماز ہے، جو پڑھنا چاہے۔ (١)

قیام اللیل للمروزی میں ہے : 
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : پہلے بزرگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ عشاء کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ (٢)

اعلاء السنن میں ہے :
اور رہی عشاء سے پہلے کی چار رکعت تو اس کے بارے میں کوئی خصوصی حدیث تو ذکر نہیں کی گئی لیکن اس کی دلیل کے طور پر حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے اور تین دفعہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو پڑھنا چاہے اس کے لئے ہے یعنی یہ نماز اختیاری ہے اور چونکہ اس وقت میں نفل کی نماز سے کوئی مانع بھی نہیں ہے لہٰذا یہ نماز مستحب ہوئی اور اسکا چار رکعت والی ہونا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک رات کے نوافل میں چار رکعت  کا ہونا افضل ہے اس لئے ان کے مذہب کے مطابق یہاں بھی مطلق نماز سے چار رکعت والی نماز مراد ہے۔ (٣)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ عشاء کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ اور مستحب ہے، جس کا پڑھنا ثواب ہے، اور اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ 

عشاء کی چار رکعت فرض کے بعد دو رکعت سنتِ مؤکدہ ہیں، جن کا بلاعذر چھوڑنا درست نہیں ہے۔ اس کی تاکید "سنن ترمذی" میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا : جو بارہ رکعات سنت پر مداومت کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (٤)

اس کے بعد چار رکعت نفل دو سلام سے پڑھنے کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ملتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ میمونہ بنت حارث ؓ زوجہ نبی ﷺ کے گھر میں سویا اور نبی ﷺ (اس دن) ان کی شب میں انہی کے ہاں تھے نبی ﷺ نے عشاء کی نماز (مسجد میں) پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چار رکعتیں پڑھ کر سو گئے۔ (٥)

سنن ابوداؤد میں ہے :
حضرت زرارہ بن اوفی ؓ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کی رات کی نماز کا حال دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے پھر گھر آکر چار رکعتیں پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر جا کر سو جاتے تھے۔ (٦)

نیز یہ بات بے بنیاد ہےکہ وتر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ کیوں کہ متعدد روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (٧)

عشاء کی نماز میں سات رکعات لازمی ہیں، چار فرض اور تین وتر، اگر یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضاء ضروری ہے۔ فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہے، جس کا پڑھنا بھی ضروری ہے، لیکن اگر چھوٹ جائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ سنن غیرمؤکدہ اور نوافل ہیں،جس میں چار رکعت سنت غیرمؤکدہ فرض سے پہلے، دو نفل وتر سے پہلے اور دو نفل وتر کے بعد ہے، ان کا پڑھنا ثواب ہے، اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر سترہ رکعتیں ہوئیں جو سب کے سب احادیث سے ثابت ہیں، کوئی بھی رکعت بے بنیاد، من گھڑت اور بدعت نہیں ہے۔


١) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ۔ (صحیح البخاری: رقم ۶۲۴/وکذا فی صحیح المسلم: ۱/ ۲۷۸)

٢) عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ :«كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ»۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي : ١/٨٨)

٣) واما الاربع قبلها اى قبل صلاه العشاء  فلم يذكر في خصوصها حديث لکن یستدل له بعموم ما رواہ الجماعة من حدیث عبدالله بن مغفل رضی الله عنه فهذا مع عدم المانع من التنفل قبلها یفید الاستحباب لکن کونها اربعا یتمشی علی قول ابی حنیفة رحمه الله لانها الافضل عندہ فیحمل علیها حملا للمطلق علی الکامل ذاتا ووصفا۔ (اعلاء السنن : ٧/٢٠)

٤) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤١٤)

٥) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٧)

٦) حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سُئِلَتْ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَتْ : كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَيَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٣٤٦)

٧) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤٧١)

(وَسُنَّ) مُؤَكَّدًا (أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ) ....  (وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ) شُرِعَتْ الْبَعْدِيَّةُ لِجَبْرِ النُّقْصَانِ، وَالْقَبْلِيَّةُ لِقَطْعِ طَمَعِ الشَّيْطَانِ (وَيُسْتَحَبُّ أَرْبَعٌ قَبْلَ الْعَصْرِ، وَقَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَهَا بِتَسْلِيمَةٍ) وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ۔

(قَوْلُهُ وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ) كَذَا عَبَّرَ فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي. وَفِي الْإِمْدَادِ عَنْ الِاخْتِيَارِ: يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ اهـ. وَالظَّاهِرُ أَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ الْمَذْكُورَتَيْنِ غَيْرُ الْمُؤَكَّدَتَيْنِ۔ (شامی : ٢/١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الآخر 1446

پیر، 16 دسمبر، 2024

ٹڈی کھانے کا شرعی حکم


سوال :

مفتی صاحب ! ٹڈی کیا ہے؟ کیا پتنگے کو ٹڈی کہتے ہیں؟ اور اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا کھانا ثابت ہے یا نہیں؟ اگر یہ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں جس ہیلی کاپٹر نما کیڑے کو ٹڈی کہا جاتا ہے، وہ ٹڈی نہیں ہے، بلکہ جسے پتنگا کہا جاتا ہے وہ ٹڈی ہے۔ جس کو عربی میں "جراد" اور انگریزی میں "Locust" کہتے ہیں، اس کا کھانا شرعاً جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہمارے لیے دو میتہ (مچھلی اور ٹڈی) اور دو خون (کلیجی اورتلی) حلال کردیئے گئے۔ (١)

ابوداؤد شریف میں ہے :
حضرت سلمان ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ٹڈی کے ( کھانے اور اس کی حقیقت کے) بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا (پرندوں میں) سب سے بڑا لشکر ہیں، نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں ( کیونکہ طبعا مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے) اور نہ (دوسروں پر) شرعاً اس کو حرام قرار دیتا ہوں (کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کیا گیا ہے۔

معلوم ہوا کہ طبعاً کراہت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹڈی تناول نہیں فرمائی۔ لہٰذا اگر ہمیں اور آپ کو اس سے کراہت ہورہی ہوتو اس میں شرعاً کوئی قباحت کی بات نہیں ہے۔ 


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُحِلَّتْ لَكُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ : فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ : فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٣٣١٤)

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ :سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرَادِ فَقَالَ : أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ، لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٨١٣)

(وَحَلَّ الْجَرَادُ) وَإِنْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِهِ، بِخِلَافِ السَّمَكِ (وَأَنْوَاعُ السَّمَكِ بِلَا ذَكَاةٍ) لِحَدِيثِ «أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ: السَّمَكُ وَالْجَرَادُ، وَدَمَانِ: الْكَبِدُ وَالطِّحَالُ» بِكَسْرِ الطَّاءِ۔ (شامی : ٦/٣٠٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1446

بدھ، 11 دسمبر، 2024

مجھے تمہارے ترکہ کی ضرورت نہیں کہنے والے کے حصے کا مسئلہ


سوال :

مفتی صاحب کسی شخص کا اپنے والد یا سرپرستوں کو یہ کہہ دینا کہ رکھ لو اپنی جائیداد اپنے پاس یا نہیں ہونا تمہاری وراثت میں سے حصہ یا یہ کہہ دینا کہ مجھے تمہاری وراثت کے حصے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ سب جملہ خواہ غصے میں کہا جائے یا سنجیدگی سے یا ہنسی مذاق میں تو کیا کہنے والا شخص شرعی اعتبار سے ہمیشہ کےلئے وراثت کے حصے سے دستبردار ہوجائے گا یا جب بھی حصہ ترکہ ہوگا تو اس شخص کوبھی حصہ میں شامل کیا جائے گا۔ برائےکرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مغیرہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا اپنے والد یا سرپرستوں کو اس طرح کہنا کہ "رکھ لو اپنی جائیداد اپنے پاس یا نہیں ہونا تمہاری وراثت میں سے حصہ یا یہ کہہ دینا کہ مجھے تمہاری وراثت کے حصے کی ضرورت نہیں ہے" تو اس کی وجہ سے اسے مستقبل میں ملنے والا حصہ ختم نہیں ہوجائے گا، بلکہ بدستور اس کا حصہ باقی رہے گا اور حسبِ شرع اسے اس کا حصہ ملے گا۔ اس لیے کہ ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز آپ کی ملکیت میں ہو اور آپ اسے سامنے والے کو پورے اختیار اور قبضہ کے ساتھ دے دیں، جبکہ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملے کہنے والے کی ملکیت میں ابھی یہ جائداد آئی ہی نہیں ہے، لہٰذا جب اس کی ملکیت ہی میں نہیں ہے تو اس کا کسی اور کو دے دینا بھی درست نہیں ہے۔ البتہ اس طرح کی ڈینگ مارنا یا والدین اور سرپرستوں کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرنا گناہ کی بات ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔



لَا يَثْبُتُ الْمِلْكُ لِلْمَوْهُوبِ لَهُ إلَّا بِالْقَبْضِ هُوَ الْمُخْتَارُ، هَكَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٤/٣٧٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الآخر 1446

منگل، 10 دسمبر، 2024

ایک بڑھیا کا حضور کے اخلاق سے متاثر ہوکر ایمان لانا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ایک واقعہ سنایا جاتا ہے کہ مکہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی اور وہ حضور کے ڈر سے مکہ چھوڑ کر جارہی تھی کہ راستے میں اسے ایک نوجوان ملتا ہے جو اس کی خدمت کرتا ہے جس سے بڑھیا بہت مثاثر ہوتی ہے، نام پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضور ہی ہیں۔ تو وہ مسلمان ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ کا حوالہ ارسال فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالغفار، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : آپ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔

 مکہ مکرمہ میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی اس نے سنا کہ بنی ہاشم کے گھر میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے، اور وہ ایسا جادوگر ہے کہ لوگوں کو ان کے آباءو اجداد کے دین سے پھیر دیتا ہے، اس نے جب یہ چرچا بہت زیادہ سنا تو ایک دن سوچا کہ میں مکہ سےکہیں دور جا کر رہائش اختیار کرلوں، تا کہ کہیں میں بھی اپنے آباء کے دین سے نہ پھر جاؤں، اس نے اپنا سامان باندھا اور گھر سے نکل پڑی، سامان وزنی تھا اسے اٹھانے میں مشکل ہورہی تھی، آپﷺ اس راستے سے گذر رہے تھے، آپﷺ نے جب ایک بوڑھی کو سامان اٹھاتے دیکھا تو آگے بڑھے اور اس کا سامان اٹھا لیا اور اس سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے؟ اس نے کہا : جنگل میں لے چلو، وہاں جا کر اس نے ایک جگہ اپنا سامان رکھوایا،آپﷺ نے اس پوچھا کہ وہ اس جنگل میں کیا کرنے آئی ہے؟ اس نے ساری با ت بتا دی،آپ ﷺ نے اس کہا کہ وہ نبی میں ہی ہوں، بوڑھی عورت آپ ﷺ کے اخلاق دیکھ کر حیران ہوئی اور سوچنے لگی کہ اتنے عمدہ اخلاق والا شخص جادو گر کیسے ہوسکتا ہے؟ اور وہ مسلمان ہوگئی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ کسی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے، یہ موضوع اور من گھڑت واقعہ ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1446

ہفتہ، 7 دسمبر، 2024

پتنگ کی تجارت کا شرعی حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک مسئلے میں رہنمائی درکار ہے، کہ پتنگ کی خرید و فروخت اور اس کا کاروبار شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پتنگ آلہ لہو ولعب میں سے ہے، اس کے اڑانے میں نہ دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا۔ بلکہ عموماً اس کے اڑانے میں متعدد ناجائز کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے، لہٰذا اس کی تجارت مکروہ ہے جس سے بچنا چاہیے۔ تاہم اس کی کمائی پر حرام کا حکم نہیں ہے۔


(فَإِنْ كَانَ يُطَيِّرُهَا فَوْقَ السَّطْحِ مُطَّلِعًا عَلَى عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِينَ وَيَكْسِرُ زُجَاجَاتِ النَّاسِ بِرَمْيِهِ تِلْكَ الْحَمَامَاتِ عُزِّرَ وَمُنِعَ أَشَدَّ الْمَنْعِ فَإِنْ لَمْ يَمْتَنِعْ بِذَلِكَ ذَبَحَهَا)۔ (شامی :٦/٤٠١) 

مَا قَامَتْ الْمَعْصِيَةُ بِعَيْنِهِ يُكْرَهُ بَيْعُهُ تَحْرِيمًا وَإِلَّا فَتَنْزِيهًا۔ (شامی : ٦/٣٩١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الآخر 1446

پیر، 2 دسمبر، 2024

فرض نماز میں بالترتيب مکمل قرآن مجید پڑھنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! عرض یہ ہے کہ ایک مسجد کے بورڈ پر لکھا گیا۔
اس مسجد میں روزانہ فجر کی نماز میں ترتیب سے قرآن پڑھا جارہا ہے۔گزشتہ سترہ مہینوں سے فجر میں پڑھے جانے والے قرآن کی کل  یکم ستمبر بروز پیر کی فجر میں تکمیل ہوگی۔ ظاہر ہے بورڈ پر لکھنے کا مقصد لوگوں کو "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن" کی برکتوں سے مستفیذ ہونے کیلئے مدعو کرنا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کی تکمیل ہوئی لیکن کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ کیا فجرکی نماز میں ایک طویل مدت میں پورا قرآن پڑھنا اور اس طرح قرآن کی تکمیل کے دن لوگوں کو مدعو کرنا مستحب اور مستحسن ہے یا بدعت؟ مزید یہ بھی بیان فرمایئے کہ یہ قابل تقلید ہے یا اسے روکنا ضروری ہے؟ اس بات  کا قوی اندیشہ ہے کہ مساجد میں مقابلہ آرائی شروع ہو جائے گی اور لوگوں کو وہاٹس ایپ پر دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو جائیں گے کہ "فلاں مسجد میں یکم شوال سے فجر کی نماز میں قرآن  بالترتیب پڑھا جا رہا ہے۔گیارہ مہینوں میں یعنی 29 شعبان کی فجر میں قرآن کی تکمیل ہوگی۔ فلاں  صاحب رقت آمیز  دعا فرمائیں گے اور "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن " کے فضائل بیان فرمائیں گے۔ عوام سے شرکت کی گزارش ہے۔"
(المستفتی : ڈاکٹر سعید احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام باتیں اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں، ہم نے خود اس کا مشاہدہ بھی کرلیا ہے کہ فرض نمازوں بالخصوص فجر کی نماز میں بالترتيب قرآن مکمل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ جن ائمہ کا قرآن پختہ نہیں ہے وہ بھی زور آزمائی کررہے ہیں اور نتیجتاً قرأت میں تغیر فاحش ہورہا ہے اور نماز دوہرانے کی نوبت آرہی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ اسے بڑی فضیلت والا عمل سمجھا جارہا ہے، لہٰذا ہم یہاں عالم اسلام کے دو انتہائی مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ سب کے سامنے واضح ہوجائے۔

دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
واضح رہے کہ عام حالات میں ہر نماز میں مسنون ترتیب کے مطابق تلاوت کرنا چاہیئے اور وہ فجر و ظہر کی نماز میں طوال مفصل (یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) میں سے پڑھا جائے جہاں سے آسان ہو اور جو حصہ زیادہ یاد ہو، نماز عصر و عشاء میں اوساط مفصل (سورہ بروج تا سورہ بینہ) میں سے پڑھا جائے، مغرب کی نماز میں قصار مفصل (یعنی سورہ بینہ تا سورۃ الناس) میں سے پڑھا جائے، یہی مسنون ترتیب ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثری معمول رہی ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق قرأت کرنا افضل ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہے، اور کبھی اسکے علاوہ دوسری جگہ سے پڑھ لینا بھی درست ہے، تاہم مذکورہ صورت میں قرآن ختم کرنے کا معمول جائز تو ہے مگر بہتر نہیں، کیونکہ اس میں مسنون ترتیب کو مستقل چھوڑنا ہے جو مکروہ تنزیہی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، نیز اس طرح نماز فجر اور نماز عشاء کے فرضوں میں قرآن مجید مکمل ختم کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (ماخذ تبویب ۱۱/۷۶۸) 

واضح رہے کہ قرأت کی بعض غلطیاں ایسی ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، اس لیے فجر اور عشاء کی نمازوں میں قرآن ختم کرنے کی وجہ سے اگر امام صاحب بکثرت غلطیاں کرتے ہوں تو قرآن ختم کرنے کے اس معمول کو ترک کرنا لازم ہے، نیز اسکے باوجود اگر امام صاحب اس سے باز نہیں آتے اور قرأت کی شدید غلطیاں کرتے ہیں، تو ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، انتظامیہ امام کو تنبیہ کرے، ورنہ امام تبدیل کر سکتی ہے۔ (رقم الفتوی : ٥٧/٢٠١٦)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز تو اس طرح قرآنِ کریم بالترتیب پڑھنے میں بھی صحیح ہوجاتی ہے مگر امام کو فرض نمازوں میں قرأتِ مسنونہ کے پڑھنے کو اختیار کرنا چاہیے، البتہ امام صاحب اپنی سنت ونوافل میں علی الترتیب پڑھتے رہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 149216)

معلوم ہوا کہ فرض نمازوں میں بالترتيب قرآن مجید پڑھ کر مکمل کرنا کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس عمل کو خلافِ اولی یعنی بہتر نہیں لکھا گیا ہے۔ اور جب یہ عمل شرعاً پسندیدہ نہیں ہے تو پھر اس کو اہمیت دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اس کی تفصیلات عوام میں بیان کرنا یہاں تک کہ ختم قرآن پر اعلان لگاکر لوگوں کو جمع کرنا یہ سارا عمل شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، لہٰذا فرض نمازوں میں بالترتيب پورا پڑھنے سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔


وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالوَاقِعَةِ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَى مِائَة، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ " قَرَأَ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ (سنن الترمذي، رقم : ٣٠٦)

وَاسْتَحْسَنُوا فِي الْحَضَرِ طِوَالَ الْمُفَصَّلِ فِي الْفَجْرِ وَالظُّهْرِ وَأَوْسَاطَهُ فِي الْعَصْرِ وَالْعِشَاءِ وَقِصَارَهُ فِي الْمَغْرِبِ. كَذَا فِي الْوِقَايَةِ.
وَطِوَالُ الْمُفَصَّلِ مِنْ الْحُجُرَاتِ إلَى الْبُرُوجِ وَالْأَوْسَاطُ مِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ إلَى لَمْ يَكُنْ وَالْقِصَارُ مِنْ سُورَةِ لَمْ يَكُنْ إلَى الْآخِرِ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٧)

ويقرأ في الحضر في الفجر في الركعتين بأربعين آية أو خمسين آية سوى فاتحة الكتاب ". ويروى من أربعين إلى ستين ومن ستين إلى مائة وبكل ذلك ورد الأثر ووجه التوفيق أنه يقرأ بالراغبين مائة وبالكسالى أربعين وبالأوساط ما بين خمسين إلى ستين۔(ھدایہ : ١/٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1446