جمعہ، 29 نومبر، 2024

ایک آدمی کا دو مسجد میں اذان دینا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی مؤذن کے لئے ایسا درست ہے کہ وہ ایک ہی وقت کی اذان کئی مسجدوں میں دے؟ مثلاً : 1بجے کی ظہر کی اذان دے، پھر کہیں 1.30 کی اذان دے، ایسا کرنا کسی ایسے شہر یا گاؤں میں ہو جہاں دوسرا کوئی اذان نہ دے سکتا ہو، یا وہ اپنی آمدنی میں اضافے کے پیش نظر کرے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں اذان دینے اور وہاں نماز پڑھ لینے کے بعد دوسری مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ دوسری مسجد میں اس کا اَذان دینا اس کے حق میں نفل ہوگا، جب کہ نفل اَذان مشروع نہیں ہے، نیز اَذان کا مقصد فرض نماز کی طرف بلانا ہے، اس صورت میں یہ شخص دوسروں کو تو فرض نماز کی طرف بلانے والا ہوگا اور خود ان کے ساتھ فریضے کی ادائیگی میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک مرتبہ فرض نماز ادا کرچکا ہے۔

اگر دوسری مسجد میں کوئی اذان دینے والا نہ ہو تو یہ شخص وہاں اذان دے سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں مسجد ثانی ہی میں نماز پڑھے، اس لیے کہ مسجد اول میں نماز پڑھنے کے بعد مسجد ثانی میں اسی مؤذن کا اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔


إذَا صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ الْأَوَّلِ يَكُونُ مُتَنَفِّلًا بِالْأَذَانِ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي وَالتَّنَفُّلُ بِالْأَذَانِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ؛ وَلِأَنَّ الْأَذَانَ لِلْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي يُصَلِّي النَّافِلَةَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ النَّاسَ إلَى الْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ لَا يُسَاعِدُهُمْ فِيهَا. اهـ۔ (شامی : ١/٤٠٠)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الاول 1446

2 تبصرے: