سوال :
حضرت مفتی صاحب ! ایک حدیث میں پڑھنے میں آیا کہ امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ کپڑا اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے جب تک وہ میلا نہ ہوجائے، میلا ہوجائے تو تسبیح منقطع ہوجاتی ہیں، کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟ سندی اعتبار سے کس درجہ کی ہے؟ ایک اور جگہ پڑھنے میں آیا ہے کہ سفید کپڑا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے جب تک میلا نہ ہوجائے، کیا یہ بات بھی صحیح ہے؟ بینوتوجروا۔
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز چاہے وہ جاندار ہو یا غیرجاندار، وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح بیان کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا۔
ترجمہ : ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ٤٤)
تسبیح کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے وجود سے اپنے بنانے والے پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن تمام مخلوقات کا ایک طرزِ تسبیح قولی بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے، اور وہ اپنی زبانِ خاص سے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف ہے۔
ایک روایت میں بغیر سفید کی قید کہ یہ ملتا ہے کہ کپڑا اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے جب تک وہ میلا نہ ہوجائے، میلا ہوجائے تو تسبیح منقطع ہوجاتی ہیں، لیکن اس روایت کو ماہرِ فن علماء نے غیرمعتبر لکھا ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور دونوں روایات معتبر نہیں ہیں جن کا بیان کرنا بھی درست نہیں ہے۔
أنَّ الثَّوبَ يُسَبِّحُ ، فإذا اتَّسخَ زالَ تسبيحُهُ.
الراوي: -
المحدث: الذهبي
المصدر: ميزان الاعتدال
الصفحة أو الرقم: 2/275
خلاصة حكم المحدث: باطل
دخلَ عليَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ لي: يا عائشةُ اغسِلي هذينِ البُردينِ، قالت: فقلتُ بأبي وأمِّي يا رسولَ اللَّهِ بالأمسِ غسلتُهما، فقالَ لي: أما علِمتِ أنَّ الثَّوبَ يسبِّحُ فإذا اتَّسخَ انقطعَ تسبيحُهُ.
الراوي: عائشة أم المؤمنين
المحدث: الخطيب البغدادي
المصدر: العلل المتناهية
الصفحة أو الرقم: 2/684
خلاصة حكم المحدث: منكر
(حديث في غسل الثوب) أنا القزاز، انا ابو بكر أحمد بن علي، قال: اخبرنا محمد بن احمد ابن محمد بن الابنوسي، قال: نا عمر بن ابراهيم الكتاني، قال: نا ابراهيم بن احمد القرميسيني قال: نا ابراهيم بن الحسين الدمشقي، قال: نا شعيب بن احمد البغدادي، قال: حدثني جدي عبد الحميد بن صالح، عن برد عن مكحول، عن الاصبغ بن نباته، عن الحسن بن علي، عن عائشة، قالت: دخل علي رسول الله، فقال لي يا عائشة! اغسلي هذين البردين! قالت: فقلت: بابي وامي يا رسول الله! بالأمس غسلتهما، فقال لي: اما علمت؟ ان الثوب يسبح، فإذا اتسخ، انقطع تسبيحه . قال الخطيب: هذا حديث منكر، قال المؤلف: قلت : وكأنه اتهم به شعيبا على ان الاصبغ ليس بشيء، قال يحيى بن معين: لا يساوي الاصبغ شيئا۔ (العلل المتناهية : ٢/٦٨٤)
أصبغ بن نباتة [ق] الحنظلي المجاشعي الكوفي. عن علي وعمار. وعنه ثابت البناني، والأجلح الكندي، وفطر بن خليفة، وطائفة. قال أبو بكر بن عياش: كذاب. وقال ابن معين: ليس بثقة. وقال - مرة: ليس بشئ. وقال النسائي وابن حبان: متروك. وقال ابن عدي: بين الضعف. وقال أبو حاتم: لين الحديث. وقال العقيلي: كان يقول بالرجعة. وقال ابن حبان: فتن بحب على، فأتى بالطامات، فاستحق من أجلها الترك۔ (ميزان الاعتدال : ٢٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الآخر 1446
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںمحترم مفتی صاحب واقعہ یوں ہواکہ ایک جماعت کے ساتھی ایک بات نقل کررہے تھے کہ ان کے امیر صاحب نے ایک شخص کے کہنے پر یوں جواب دیا ۔
جواب دیںحذف کریںاس شخص نے امیر صاحب سے یہ حدیث بیان کرتے ہوۓ سوال کیا کہ حدیث میں تو ہے کہ جس کے اندر رائ کے دانے کے برابر ایمان ہو وہ جنت میں داخل ہوگا تو رائ کے دانے کے برابر ایمان کی علامت کیاہے؟؟؟
تو جماعت کے امیر صاحب نے یہ جواب دیا کہ رائ کے دانے کے برابر ایمان کی علامت یہ ہے کہ جس کے اندر رائ کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ نماز کو آئیگا (نماز پڑھے گا)اور جس کے اندر رائ کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہوگا وہ نماز کو نہیں آۓ گا(نماز کو نہیں پڑھے گا)
لہذا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جماعت کے امیر صاحب نے اس حدیث شریف کی جو تشریح کی ہے وہ صحیح ہے یا غلط؟؟؟
مکمل ومدلل جواب دیں عین نوازش ہوگی۔۔۔۔۔