سوال :
عورتوں کے بال پیچھے کرکے بُچھڑا جسے کہتے ہیں، اس بارے میں کچھ سخت حدیث بیان کی گئی ہے؟ آج کل تو ہر گھر میں یہی ہے، عورتیں کہتی ہیں کہ یہ بہت آسان ہوتا ہے۔ بال پیچھے کرکے لپیٹ کر سر پر جما لو، بعد میں فرصت ملے تو کنگھی کرو پھر چوٹی بناؤ.. وغیرہ وغیرہ
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا (اور نہ میں دیکھوں گا) ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہونگے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق) ماریں گے اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خواہ مردوں کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سربختی اونٹ کی کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی حالانکہ جنت کی بو اتنی اتنی (یعنی مثلاً سو برس) دوری سے آتی ہے۔
ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے، اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی چوٹیوں کو جوڑے کی صورت میں سر پر باندھ لیتی ہیں اور جس طرح بختی اونٹ کے کوہان فربہی کی وجہ سے ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں اسی طرح ان کے سر کے جوڑے بھی ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں۔ اس حدیث میں عورتوں کے جس خاص طبقہ کی نشان دہی کی گئی ہے اس کا وجود آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ میں نہیں تھا بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے آنے والے زمانہ میں اس قسم کی عورتوں کی پیدا ہونے کی خبر دی۔
ہمارے یہاں عموماً عورتیں بالوں کا جو بُچھڑا باندھتی ہیں وہ سر کے بالکل اوپر نہیں ہوتا، بلکہ پیچھے کی طرف گُدی پر ہوتا ہے، لہٰذا یہ جائز ہے، بلکہ نماز کی حالت میں افضل ہے، کیونکہ اس سے بالوں کے پردے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ ممانعت اس طرح کے بالوں کی ہیں جو بالکل سر کے اوپر لاکر اونٹ کے کوہان کی طرح باندھے جائیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا ؛ قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢١٢٨)
(رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ): بِضَمِّ مُوَحَّدَةٍ وَسُكُونِ مُعْجَمَةٍ. فِي النِّهَايَةِ: الْبُخْتِيُّ مِنَ الْجِمَالِ، وَالْأُنْثَى بُخْتِيَّةٌ جَمْعُ بُخْتٍ وَبَخَاتِيٍّ جِمَالٌ طِوَالُ الْأَعْنَاقِ، وَاللَّفْظَةُ مُعْرَبَةٌ أَيْ: يُعَظِّمْنَهَا وَيُكَبِّرْنَهَا بِلَفِّ عِصَابَةٍ وَنَحْوِهَا، وَقِيلَ: يَطْمَحْنَ إِلَى الرِّجَالِ لَا يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ، وَلَا يُنَكِّسْنَ رُءُوسَهُنَّ (الْمَائِلَةُ): صِفَةٌ لِلْأَسْنِمَةِ، وَهِيَ جَمْعُ السَّنَامِ، وَالْمَائِلَةُ مِنَ الْمَيْلِ ; لِأَنَّ أَعْلَى السَّنَامِ يَمِيلُ لِكَثْرَةِ شَحْمِهِ، وَهَذَا مِنْ صِفَاتِ نِسَاءِ مِصْرَ (لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ): صِفَةٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْ لِلرِّجَالِ مِثْلَهَا اخْتِصَارًا وَإِيجَازًا ذَكَرَهُ الطِّيبِيُّ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٦/٢٣٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الآخر 1446
سر کے پیچھے کے حصے میں اوپری حصے میں تقریبا گردن سے پانچ چھ اینچ اوپر بالوں کا جوڑا (بوچھڑا) باندھا جاتا ہے، وہ تقریبا اسی حدیث کا مصداق ہے،
جواب دیںحذف کریںاس لیے آپ کا جواب وضاحت طلب ہے کہ آپ نے جو جواز کی گنجائش نکالی ہے وہ گردن پر بنایا جانے والا جوڑا ہے یا گردن س پانچ چھ اینچ بنایا جانے والا جوڑا
مجھے بھی یہی خلجان ہے براہ کرم وضاحت فرما دیں
حذف کریںمیری سمجھ کے مطابق جو عورتیں بالوں کو سر کے پچھلے حصے پر جمع کرکےاس پر بڑے والا کلپ لگا لے پھر اسپر اوڑھنی ڈالنے سے سر سے اونچا دکھائی دے ان کے لئے یہ بات ہے شاید
جواب دیںحذف کریںغیر مسلم سادھو سنت سر کے بالکل اوپر بالوں کا بچھڑا باندھتے ہیں وہ عورتوں کے بچھڑے سے الگ ہوتا ہے ۔ گوگل پر تصویر موجود ہے لیکن آج کل فیشن ایبل عورتیں سادھوؤں کی طرح بالوں کا بچھڑا بنوا رہی ہیں شاید حدیث کی وہ مصداق ہوں
جواب دیںحذف کریںمحترم مفتی صاحب ،،ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہونگے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق) ماریں گے،، اگر اس کی بھی تشریح فرما دیتے تو بڑا اچھا ہوتا ۔۔جزاک اللہ خیر
جواب دیںحذف کریں