سوال :
مفتی صاحب کیا یہ تحریر درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
وہ کپڑے جو طویل عرصے تک بغیر استعمال یا صفائی کے لٹکے رہیں، چاہے وہ الماری میں ہوں یا باہر :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے کپڑوں کو لپیٹ کر رکھو، کیونکہ شیطان ان کپڑوں میں قیام کرتا ہے جو لٹکے رہتے ہیں۔
اکثر لوگ کپڑے تیار حالت میں لٹکا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان سے محفوظ رہنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کریں یا الماری کھول کر سورۃ الفاتحہ اور آیت الکرسی پڑھیں۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کا ذکر کرکے کپڑوں کو لٹکا کر رکھنے سے منع کیا گیا ہے پہلے اس روایت کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
مفتی سلمان منصور پوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
مذکورہ روایت ’’المعجم الأوسط للطبراني‘‘ مکتبہ ریاض ۶؍ ۳۲۸، حدیث نمبر ۵۶۹۸ پر موجود ہے، اس کی سند میں ایک راوی عمر بن موسی بن وجیہ نہایت ضعیف، وضاع اور غیر معتبر ہے، ابو حاتم نے اس کے بارے میں ’’ متروک الحدیث وذاہب الحدیث‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور کہا یہ حدیثیں گڑھا کرتا تھا، لہٰذا یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔ (کتاب النوازل : ٢/١٨١)
معلوم ہوا کہ جب یہ روایت ہی معتبر نہیں ہے تو پھر کپڑوں کو لٹکاکر رکھنے میں نہ تو شرعاً کوئی قباحت ہے اور نہ ہی ان پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا ضروری ہے۔ یہ تحریر غیرمعتبر روایت پر مبنی اور بلاوجہ تشویش میں مبتلا کرنے والی ہے، لہٰذا اسے شیئر کرنا بھی درست نہیں ہے۔
اطُووا ثيابَكم ترجِعْ إليها أرواحُها فإنَّ الشَّيطانَ إذا وجَد الثَّوبَ مَطويًّا لَمْ يلبَسْه وإذا وجَده منشورًا لبِسه
الراوي : جابر بن عبدالله • الطبراني، المعجم الأوسط (٦/٣١) • لم يرو هذا الحديث عن أبي الزبير إلا عمر بن موسى بن وجيه لا يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد
ہذا الحدیث في إسنادہ عمر بن موسی بن وجیہ وہو وضاع فقد ترجم لہ ابن أبي حاتم، وقال: سألت أبي عن عمر بن موسی، فقال: متروک الحدیث، ذاہب الحدیث کان یضع الحدیث۔ (ہامش المعجم الاوسط : ۶؍۳۲۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ربیع الآخر 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں