سوال :
مفتی صاحب ! اس تحریر کی تحقیق فرما دیں کہ یہ صحیح یا غلط؟
وہ بستر جس پر طویل عرصے تک کوئی نہ سوئے :
ایسا بستر شیطان کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ یہ بات سنت میں ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے لیے ایک بستر، اس کے اہل کے لیے ایک اور بستر، مہمان کے لیے ایک اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔ لہٰذا بستر کو تہہ کرنا اور ہر دو تین دن بعد اس پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرنا چاہیے۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ایک بچھونا مرد کے لئے، دوسرا بچھونا اس کی بیوی کے لئے، تیسرا بچھونا مہمان کے لئے اور چوتھا بچھونا شیطان کے لئے ہوتا ہے۔
اس حدیث کی شرح میں شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اگر کسی گھر میں میاں بیوی ہوں اور وہ استطاعت رکھتے ہوں تو ان کو اپنے یہاں تین بستر رکھنے چاہئیں، ایک تو میاں کے لئے، دوسرا بیوی کے لئے کہ شاید کسی وقت بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ تنہا سونا چاہے ورنہ میاں بیوی کو ایک بستر پر سونا اولی ہے اور سنت کے مطابق ہے، کیوں کہ آنحضرت ﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ سویا کرتے تھے۔ اور تیسرا بستر اس مقصد کے لئے ہو کہ اگر کوئی مہمان آ جائے تو وہ رات میں اس پر سوئے، بس یہ تین بستر کافی ہیں ان سے زیادہ جو بھی بستر ہو گا وہ اسراف کی حد میں آئے گا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چوتھا بستر ہو گا تو وہ شیطان کے لئے ہوگا، شیطان کی طرف نسبت اسی لئے گئی ہے کہ وہ (چوتھا بستر) یقینا ضرورت و حاجت سے زائد ہوگا اور ضرورت سے زائد چیز کا ہونا "فخر و مباہات" کے دائرے میں آنے کی وجہ سے مذموم ہے اور ہر مذموم چیز کی نسبت شیطان ہی کی طرف ہوتی ہے، یا اس نسبت کا سبب یہ ہے کہ وہ چوتھا بستر چونکہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے اس لئے شیطان اس پر رات گزارتا ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ جو شخص سخی اور فراخدل ہو اور کرم نواز طبیعت کا مالک ہو اور اس وجہ سے اس کے یہاں مہمانوں کی آمد کثرت سے ہوتی ہو تو اس کے یہاں بستر اور دوسرے اسباب کی زیادتی بظاہر مذموم نہیں ہوگی، مذموم تو وہ زیادتی و کثرت ہوگی جو محض اپنی بڑائی کے اظہار اور مفاخرت کے تحت ہو۔
خلاصہ یہ کہ مستقبل میں مہمانوں اور رشتہ داروں کی ضرورت کی وجہ سے تین سے زائد بچھونے، بستر اور بیڈ رکھنا بلاشبہ جائز ہے، شیطان کے قیام کی جگہ وہ بستر ہیں جو ریاکاری اور نمائش کے لیے ہوں، لہٰذا جو بستر ضرورت کے لیے ہوں ان کو تہہ کرکے رکھنا شرعاً ضروری نہیں، اور نہ ہی ان پر قرآن کی آیت پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرنا ضروری ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٠٨٤)
وَكَانَ الْإِمَامُ النَّوَوِيُّ غَفَلَ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى وَاخْتَارَ الْأَوَّلَ هُنَا ; فَقَالَ: أَيْ أَنَّ مَا زَادَ عَلَى الْحَاجَةِ وَاتِّخَاذٍ لِلْمُبَاهَاةِ وَالِاخْتِيَالِ وَالْإِلْهَاءِ بِزِينَةِ الدُّنْيَا، وَمَا كَانَ بِهَذِهِ الصِّفَةِ فَهُوَ مَذْمُومٌ، وَكُلُّ مَذْمُومٍ يُضَافُ إِلَى الشَّيْطَانِ لِأَنَّهُ يَرْتَضِيهِ، وَأَمَّا تَعْدِيدُ الْفِرَاشِ لِلزَّوْجِ فَلَا بَأْسَ،لِأَنَّهُ قَدْ يَحْتَاجُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى فِرَاشٍ عِنْدَ الْمَرَضِ وَنَحْوِهُ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٢٧٦٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الآخر 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں