سوال :
مفتی صاحب ! ایک مسئلہ کی وضاحت چاہتا ہوں امید کے جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ عبداللہ اور اس کی بیوی اولاد نہ ہو کے وجہ سے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اولاد چاہتے ہیں، کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟ اور کیا طریقہ کار ہوگا؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت کر کے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مولانا خالد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فی زمانہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی درج ذیل تین صورتیں رائج ہیں۔
١) اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے مادہ تولید کی تلقیح (مرد کی منی کے جرثومے اور بیضۃ انثی کی مصنوعی تخم ریزی کے اختلاط) سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی۔
٢) میاں بیوی کے مادہ تولیدی کی بیرونی طور پر تلقیح واختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو رحم مستعار (دوسری عورت کے رحم) میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد تولید۔ جسے surrogate mother یعنی کرایہ کی کوکھ کہا جاتا ہے۔
٣) شوہر کے مادہ تولید کی تلقیح خود اسی کی بیوی کے رحم میں یا میاں بیوی کے مادہ تولید کے اختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو اسی بیوی کے رحم میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد ولادت ہوتی ہے۔ جسے طب کی اصطلاح میں (IVF) اور (IUI) کہا جاتا ہے۔
ذکر کردہ پہلی دو صورتیں تو بالاتفاق ناجائز اور حرام ہیں، لہٰذا ان کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ البتہ تیسری صورت کی گنجائش بہت سے علماء اور مؤقر اداروں نے لکھی ہے، بشرطیکہ میاں بیوی کی فطری طریقے سے اولاد نہ ہوتی ہو، اور علاج کے دوران مندرجہ ذیل دو باتوں کا خوب خیال رکھا جائے :
١) شوہر کی منی کا اخراج عزل یعنی بیوی کے ساتھ صحبت کے بعد ہو۔ یا پھر بیوی کے ہاتھ کے ذریعہ بھی منی کا اخراج کیا جاسکتا ہے۔
٢) بیوی کے رحم میں نطفہ پہنچانے کا عمل کسی لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے انجام دیا جائے اور جتنا ستر کھولنے کی حاجت ہو، صرف اُس حد تک ستر کھولا جائے، باقی ستر کے حصے کو نہ کھولا جائے۔ اگر کسی لیڈی ڈاکٹر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہو کہ مرد ڈاکٹر کسی خاتون کو سکھا کر اُس کے ذریعے یہ عمل انجام دے تو پھر ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر کے ذریعے بھی یہ عمل انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن اِس میں پھر اِس بات کا اور زیادہ اہتمام ہو کہ ضرورت کی جگہ کے علاوہ باقی ستر کو مکمل ڈھانکا جائے، اور اِس کے ساتھ مرد ڈاکٹر کے ساتھ شوہر یا کوئی خاتون موجود ہوں تاکہ خلوت پیش نہ آئے۔ اِسی طرح مرد ڈاکٹر کو ایسی صورت میں اِس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ دورانِ علاج ستر کے حصے کی طرف کم سے کم نظر کرے اور ضرورت کے علاوہ اپنی نظر کو دوسری طرف رکھے۔
اسی طرح ہر ممکن وضروری تدابیر اختیار کی جائیں جس سے مادہ منویہ کی تبدیلی یا اختلاط نسب کا اندیشہ نہ ہو، مزید تفصیل اور تشفی کے لیے فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی جدید فقہی مسائل جلد پنجم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗإِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ (سورۃ النور، آیت : ٣٠)
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ حُنَيْنًا، فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا، فَقَالَ : " لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ (مسند احمد، رقم : ١٩٩٩٠)
وَإِنْ كَانَ فِي مَوْضِعِ الْفَرْجِ، فَيَنْبَغِي أَنْ يُعَلِّمَ امْرَأَةً تُدَاوِيهَا فَإِنْ لَمْ تُوجَدْ وَخَافُوا عَلَيْهَا أَنْ تَهْلِكَ أَوْ يُصِيبَهَا وَجَعٌ لَا تَحْتَمِلُهُ يَسْتُرُوا مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ إلَّا مَوْضِعَ الْعِلَّةِ ثُمَّ يُدَاوِيهَا الرَّجُلُ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا اسْتَطَاعَ إلَّا عَنْ مَوْضِعِ الْجُرْحِ۔ (شامی : ٦/٣٧١)
وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَمْنِيَ بِيَدِ زَوْجَتِهِ وَخَادِمَتِهِ اهـ وَسَيَذْكُرُ الشَّارِحُ فِي الْحُدُودِ عَنْ الْجَوْهَرَةِ أَنَّهُ يُكْرَهُ وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهِ كَرَاهَةُ التَّنْزِيهِ فَلَا يُنَافِي قَوْلَ الْمِعْرَاجِ يَجُوزُ تَأَمَّلْ وَفِي السِّرَاجِ إنْ أَرَادَ بِذَلِكَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ الْمُفْرِطَةِ الشَّاغِلَةِ لِلْقَلْبِ وَكَانَ عَزَبًا لَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا أَمَةَ أَوْ كَانَ إلَّا أَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْوُصُولِ إلَيْهَا لِعُذْرٍ قَالَ أَبُو اللَّيْثِ أَرْجُو أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ وَأَمَّا إذَا فَعَلَهُ لِاسْتِجْلَابِ الشَّهْوَةِ فَهُوَ آثِمٌ۔ (شامی : ٢/٢٩٨)
وَذَكَرَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - فِي شَرْحِ كِتَابِ الصَّوْمِ أَنَّ الْحُقْنَةَ إنَّمَا تَجُوزُ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، وَإِذَا لَمْ يَكُنْ ثَمَّةَ ضَرُورَةٍ وَلَكِنْ فِيهَا مَنْفَعَةٌ ظَاهِرَةٌ بِأَنْ يَتَقَوَّى بِسَبَبِهَا عَلَى الْجِمَاعِ لَا يَحِلُّ عِنْدَنَا، وَإِذَا كَانَ بِهِ هُزَالٌ، فَإِنْ كَانَ هُزَالٌ يُخْشَى مِنْهُ التَّلَفُ يَحِلُّ، وَمَا لَا فَلَا، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٣٠)
وَلَا يَجُوزُ لَهَا أَنْ تَنْظُرَ مَا بَيْنَ سُرَّتِهَا إلَى الرُّكْبَةِ إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ بِأَنْ كَانَتْ قَابِلَةً فَلَا بَأْسَ لَهَا أَنْ تَنْظُرَ إلَى الْفَرْجِ عِنْدَ الْوِلَادَةِ.
وَكَذَا لَا بَأْسَ أَنْ تَنْظُرَ إلَيْهِ لِمَعْرِفَةِ الْبَكَارَةِ فِي امْرَأَةِ الْعِنِّينِ وَالْجَارِيَةِ الْمُشْتَرَاةِ عَلَى شَرْطِ الْبَكَارَةِ إذَا اخْتَصَمَا وَكَذَا إذَا كَانَ بِهَا جُرْحٌ أَوْ قُرْحٌ فِي مَوْضِعٍ لَا يَحِلُّ لِلرِّجَالِ النَّظَرُ إلَيْهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ تُدَاوِيَهَا إذَا عَلِمَتْ الْمُدَاوَاةَ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمْ تَتَعَلَّمْ ثُمَّ تُدَاوِيهَا فَإِنْ لَمْ تُوجَدْ امْرَأَةٌ تَعْلَمُ الْمُدَاوَاةَ وَلَا امْرَأَةٌ تَتَعَلَّمُ وَخِيفَ عَلَيْهَا الْهَلَاكُ أَوْ بَلَاءٌ أَوْ وَجَعٌ لَا تَحْتَمِلُهُ يُدَاوِيهَا الرَّجُلُ لَكِنْ لَا يَكْشِفُ مِنْهَا إلَّا مَوْضِعَ الْجُرْحِ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا اسْتَطَاعَ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الاول 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں