جمعہ، 20 ستمبر، 2024

حضرت عمر کا قبر میں منکر نکیر سے سوال کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! شہر کے ایک شعلہ بیان مقرّر ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا عمر قبر میں تیرا کیا بنے گا جب منکر نکیر سوال کرنے آئیں گے؟ حضرت عمر نے فرمایا : جیسا ابھی ہوں ویسا ہی قبر میں رہوں گا تو میں ان کے لیے کافی ہوجاؤں گا۔ اتنے میں جبرئیل آئے اور فرمایا قبر میں عمر منکر نکیر سے خود سوال کریں گے۔ کیا یہ روایت درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت کے دو حصے بنتے ہیں، پہلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منکر نکیر سے متعلق گفتگو کرنا جبکہ دوسرے حصے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قبر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود منکر نکیر سے سوال کریں گے۔ یعنی منکر نکیر سوالات کریں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں جواب دیں کہ میرا رب اللہ ہے، مگر تمہارا رب کون ہے؟ میرا دین اسلام ہے، مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں، مگر تمہارا نبی کون ہے؟ وہ کہیں گے: بڑے تعجب کی بات ہے، ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری طرف بھیجے گئے ہو؟

معلوم ہونا چاہیے کہ مذکورہ روایت کا پہلا حصہ تو معتبر روایات سے ثابت ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ جس میں حضرت عمرؓ کا خود منکر نکیر سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ حصہ کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے، یہ روایت "الریاض النضرة" نامی کتاب میں مذکور ہے، لیکن اس کتاب کی تحقیق اور تخریج کرنیوالے محقق عبدالمجید طعمة حلبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منکر نکیر سے سوال کرنے والا حصہ روایت کا جزو نہیں ہے، بلکہ اسے بغیر سند کے محب طبریؒ نے ذکر کردیا ہے۔ لہٰذا اس روایت کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔


 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأَحْمَسِيُّ، قَالَ: ثنا مُفَضَّلٌ يَعْنِي ابْنَ صَالِحِ أَبَا جَمِيلَةَ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي شَهْرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ : «كَيْفَ أَنْتَ إِذَا كُنْتَ فِي أَرْبَعَةِ أَذْرُعٍ فِي ذِرَاعَيْنِ، وَرَأَيْتَ مُنْكَرًا وَنَكِيرًا؟» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ؟ قَالَ: «فَتَّانَا الْقَبْرِ، يَبْحَثَانِ الْأَرْضَ بِأَنْيَابِهِمَا، وَيَطَآنِ فِي أَشْعَارِهِمَا، أَصْوَاتُهُمْ كَالرَّعْدِ الْقَاصِفِ، وَأَبْصَارُهُمَا كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ، مَعَهُمَا مِرْزَبَّةُ لَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهَا أَهْلُ مِنًى، لَمْ يُطِيقُوا رَفْعَهَا، هِيَ أَيْسَرُ عَلَيْهِمَا مِنْ عَصَاتِي هَذِهِ» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا عَلَى حَالِي هَذِهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: إِذَنْ أَكْفِيكَهُمَا۔ (البعث : ١٨)

فقال ﷺ: «والذي بعثني بالحق نبيًّا، لقد أخبرني جبريل أنهما يأتيانك فتقول أنت: الله ربي فمن ربكما؟ ومحمد نبيي فمن نبيكما؟ والإسلام ديني فما دينكما؟ فيقولان: وا عجباه!! ما ندري نحن أرسلنا إليك، أم أنت أرسلت إلينا؟» خرجه عبد الواحد بن محمد بن علي المقدسي في كتابه التبصير، وخرج الحافظ أبو عبد الله القاسم الثقفي عن جابر من أوله إلى ذكر السؤال وقال: فقال عمر: يا رسول الله أية حال أنا يومئذ؟ قال: «على حالك» قال: إذن أكفيكهما، ولم يذكر ما بعده. وخرج سعيد بن منصور معناه، ولفظه: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم أنا محمد بن علوان بن علقمة قال: حدثني أصحابنا قالوا: قال رسول الله ﷺ لعمر: «كيف بك إذا جاءك منكر ونكير يسألانك؟ صوتهما مثل الرعد القاصم وأبصارهما مثل البرق الخاطف، يطئان في أشعارهما ويبحثان بأنيابهما» فقال: يا رسول الله، أنبعث على ما متنا عليه؟ قال: «نعم، إن شاء الله تعالى» قال: إذن أكفيكهما۔(الریاض النضرۃ، المؤلف: محب الطبریؒ، المحقق: عبد المجید طعمة حؔلبی، ٢/٣٤٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 ربیع الاول 1446

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں