✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال پانچ ستمبر کو یومِ اساتذہ (Teacher's Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پورے ملک میں اساتذہ سے متعلق مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو انعام سے نوازا جاتا ہے، اور طلباء اپنے اساتذہ کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یوم آزادی اور یوم جمہوریہ قومی تہوار ہیں، اسی طرح یومِ اساتذہ بھی ایک قومی تہوار ہے، لہٰذا شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منانے میں کوئی مُنکَر اور برائی نہ پائی جاتی ہو، مثلاً بے پردگی، ناچ گانے اور موسیقی وغیرہ کا انتظام نہ ہو۔
معزز قارئین ! ہمارے شہر کی اسکولوں میں یوم اساتذہ اس طرح منایا جاتا ہے کہ اس دن بعض طلباء خود استاذ بن کر پڑھاتے ہیں یا پھر اساتذہ کی اہمیت اور ان کے مقام ومرتبہ پر تقاریر ہوتی ہیں، بعض اسکولوں میں طلباء اپنے اساتذہ کو تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ان تحائف کا لین دین اپنی مرضی اور خوشی سے ہو اور اس کی وجہ سے دیگر غریب طلباء کی دل آزاری نہ ہوتی ہوتو اس میں حرج نہیں۔ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ بعض اسکولوں میں باقاعدہ طلباء کو کہا گیا ہے کہ ٹیچرس ڈے کو گفٹ لے کر آنا ہے۔ یا پھر ان تحائف کا لین دین اس طرح ہوتا ہے کہ غریب طلباء بھی اپنے والدین سے مہنگے مہنگے گفٹ کے لیے ضد کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے شہر میں الحمدللہ ایسے دیندار اور محتاط اساتذہ بھی ہیں جو یہ مسئلہ بھی پوچھتے ہیں کہ بغیر کچھ کہے بچوں سے ملنے والے تحائف ہم قبول کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یعنی اکثریت سمجھدار لوگوں کی ہے۔ لیکن جہاں بھی اوپر بتائے گئے غلط طریقے کے مطابق تحائف کا لین دین ہوتا ہے تو انہیں اس پر توجہ دینے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس سلسلے میں زیادہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے بلکہ اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے صرف اتنی سی عاجزانہ اور مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ یوم اساتذہ منائیں لیکن اس میں کوئی ایسا عمل نہ ہو جس میں کسی کی دل آزاری اور شرعاً کوئی ناجائز عمل پایا جائے۔
محترم قارئین ! بلاشبہ علمِ نافع، اخلاق اور تہذیب سکھانے والے اساتذہ کی دین ودنیا دونوں طرح سے بڑی اہمیت اور ان کا بڑا مقام ومرتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کے سب سے بڑے محسن اس کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ لیکن سال میں ایک مرتبہ وہ بھی رسمی طور پر ان کی مدح سرائی کردینا یا کوئی تحفہ دے دینا اور پھر انہیں اور ان کی خدمات کو فراموش کردینا نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کوئی اچھا عمل ہے۔ لہٰذا طلباء کے لیے اپنے اساتذہ کا پوری زندگی اکرام کرنا اور ہمیشہ ان کے لیے دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ طلباء کے ساتھ محبت، شفقت اور خیرخواہی کا معاملہ کریں اور اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کریں تب ہی ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر معاملے میں شریعت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں اپنے اساتذہ کی کماحقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب
حذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیرا 🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر...
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
ماشآاللہ
جواب دیںحذف کریں