سوال :
ٹولین اور چڑیل کی شریعتِ اسلامیہ میں کیا حقیقت ہے؟ کیا کسی عورت کو ٹولین لگتی ہے؟ یا لگ سکتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں کسی ایسی بوڑھی عورت کو جو سب سے الگ تھلگ زندگی گزارتی ہو اور روزے نماز خوب کرتی ہو عموماً اس کو ٹولین کے نام سے مشہور کردیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ تو اس کی کیا حقیقت ہے؟کبھی کسی عورت کا رشتہ محض یہ بول کر رد کردیا جاتا ہے کہ اس عورت کو ٹولین لگتی ہے۔ ایسا بولنے والوں کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اس طرح کی بات بولنے سے اس خاتون کا رشتہ نہیں ہوتا؟ بینوا توجروا
(المستفتی : عرفان احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریر جن کی مؤنث یعنی جنیہ ہی چڑیل ہوتی ہیں۔ یعنی وہی مختلف ہیبت ناک شکل میں بعض انسانوں کو ڈراتی ہیں یا پھر بعض مرتبہ عورتوں پر حاوی بھی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی آزمائش کے لیے یہ قدرت دے رکھی ہے کہ وہ مختلف تصرف کرکے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس کا قرآن وحدیث سے ثبوت بھی ملتا ہے، لہٰذا کسی کے جسم پر جنات کا تسلط اور اس کے اثر سے مغلوب ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے۔
ایک واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سنایا ہے کہ "بنو عذرہ" قبیلے کا ایک شخص جس کا نام "خرافہ" تھا اسے جنات پکڑ کر لے گئے تھے، وہ ایک عرصے تک جنات کے درمیان مقیم رہا پھر وہی اسے انسانوں کے پاس چھوڑ گئے۔ اب وہ واپس آنے کے بعد عجیب عجیب قصے سنایا کرتا تھا، اس لئے لوگ (ہر عجیب بات کو) خرافہ کا قصہ کہنے لگے، خلاصہ یہ کہ انسان پر جنات کا اثر ہو سکتا ہے اور وہ انسان کی رگوں کے اندر بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
بھوت پریت، سایہ، ہوا وغیرہ یہ سب وہمیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہاں جن کا اثر یا سحرکا اثر یہ تو ثابت ہے بقیہ ساری چیزیں توہمات کے قبیلہ سے ہیں۔ عامل لوگ لوگوں کے دلوں میں اس کا ہوا بیٹھا دیتے ہیں اور وہم کو تقویت دیتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرح کی وہمیات میں نہ پڑنا چاہئے، خود بھی پاک و صاف رہیں، گھروں کو بھی پاک و صاف رکھیں، پانچوں وقت نماز پڑھیں، گھروں میں نفل نماز اور قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ کوئی چیز قریب نہیں آئے گی۔ (رقم الفتوی : 600747)
ہمارے یہاں جسے ٹولین کہا جاتا ہے وہ اصل میں ٹونائن یعنی جادو ٹونا کرنے والی ہے۔ بلاشبہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں، اور جادو کے ذریعے دوسری عورتوں کو سخت تکلیف پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ جادو کے زور سے ان پر اس طرح بھی غالب آسکتی ہیں کہ ان کی زبان سے اپنی بات بھی کہلوا سکتی ہیں۔ ایسی عورتوں کو کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے جبکہ اصلاً ان پر (ٹونائن) کے جادو کا اثر ہوتا ہے۔
اسی طرح بعض مرتبہ کسی دماغی بیماری کی وجہ سے بھی عورتوں سے ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ ان پر جادو یا جنات کا اثر ہے، ایسی عورتوں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے طبی لحاظ سے کوئی بیماری ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا صحیح رُخ پر علاج کیا جائے تو یہ مسائل جلد ختم ہوجاتے ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جادو کا سیکھنا سکھانا قرآن وحدیث کی رو ناجائز، حرام اور بروز حشر سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا عمل ہے۔ نیز اگر جادو سیکھنے یا کرنے میں کوئی شرکیہ اور کفریہ عمل کیا گیا یا کوئی شرکیہ کفریہ کلمہ کہا گیا ہے تو ایسے لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں۔ اگر بغیر توبہ کے مرجائیں تو سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ لیکن ایسی عورتیں یعنی (ٹونائن) بہت کم ہوتی ہیں، اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ چھپ چھپا کر عمل کریں گی، اس طرح لوگوں کے درمیان مشہور تھوڑی نہ ہوں گی، عموماً بعض نیک اور نمازی خواتین کو ان کے ہی رشتہ دار یا پڑوسی کسی دشمنی یا حسد میں ٹولین مشہور کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں مجبوراً الگ تھلگ رہنا پڑتا ہے۔ یہ انتہائی واہیات اور سخت گناہ کی بات ہے کہ نیک عورتوں سے متعلق ایسی بے بنیاد باتیں لوگوں کے درمیان پھیلائی جائے، جب تک کسی کے بارے میں پختہ ثبوت نہ ملے کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہے اسے ٹونائن کہنا بہتان، ناجائز اور حرام کام ہے۔ ایسے لوگوں کی بروزِ حشر سخت گرفت ہوگی۔ اور ان کی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھانے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔ اور ان کے بہتان اور جھوٹ بات کو بغیر پختہ ثبوت کے آگے بڑھانے کی وجہ سے کسی کا رشتہ لگنے یا کسی اور معاملات میں تکلیف آئے تو اس کا وبال بھی ان لوگوں پر ہوگا۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَدِيثًا، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّ الْحَدِيثَ حَدِيثُ خُرَافَةَ، فَقَالَ : " أَتَدْرِينَ مَا خُرَافَةُ ؟ إِنَّ خُرَافَةَ كَانَ رَجُلًا مِنْ عُذْرَةَ، أَسَرَتْهُ الْجِنُّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَكَثَ فِيهِنَّ دَهْرًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَى الْإِنْسِ فَكَانَ يُحَدِّثُ النَّاسَ بِمَا رَأَى فِيهِمْ مِنَ الْأَعَاجِيبِ، فَقَالَ النَّاسُ : حَدِيثُ خُرَافَةَ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٥٢٤٤)
قال المحقق في الفتح : قال أصحابنا : للسحر حقیقۃ وتأثیر في الأجسام خلافًا لمن منع ذٰلک۔ (إعلاء السنن، کتاب السیر / حکم السحر وحقیقتہ ۱۲؍۶۰۰)
المراد بالسحر ما یستعان في تحصیلہ بالتقرب إلی الشیطان مما لا یستقل بہ الإنسان، وذٰلک لا یحصل إلا لمن یناسبہ في الشرارۃ وخبث النفس۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۴؍۲۵۹)
اخل الأجسام المحالَ أن يتداخل جسمان كثيفان أحدُهما في الآخر، بحيث يكون حيِّزُهما واحدًا. وأما أن يدخل جسمٌ لطيف في كثيف يسري فيه، فهذا ليس بمحال۔(کتاب الروح : ٢/٦١١)
"(و) الكافر بسبب اعتقاد (السحر) لا توبة له (ولو امرأة) في الأصح.
مطلب في الساحر والزنديق (قوله والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته. وأما الكاهن، فقيل هو الساحر، وقيل هو العراف الذي يحدث ويتخرص، وقيل من له من الجن من يأتيه بالأخبار. وقال أصحابنا: إن اعتقد أن الشياطين يفعلون له ما يشاء كفر لا إن اعتقد أنه تخييل، وعند الشافعي إن اعتقد ما يوجب الكفر مثل التقرب إلى الكواكب وأنها تفعل ما يلتمسه كفر. وعند أحمد حكمه كالساحر في رواية يقتل، وفي رواية إن لم يتب، ويجب أن لا يعدل عن مذهب الشافعي في كفر الساحر والعراف وعدمه. وأما قتله فيجب ولا يستتاب إذا عرفت مزاولته لعمل السحر لسعيه بالفساد في الأرض لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره. اهـ. وحاصله أنه اختار أنه لا يكفر إلا إذا اعتقد مكفرا، وبه جزم في النهر، وتبعه الشارح، وأنه يقتل مطلقا إن عرف تعاطيه له، ويؤيده ما في الخانية: اتخذ لعبة ليفرق بين المرء وزوجه. قالوا: هو مرتد ويقتل إن كان يعتقد لها أثرا ويعتقد التفريق من اللعبة لأنه كافر. اهـ. وفي نور العين عن المختارات: ساحر يسحر ويدعي الخلق من نفسه يكفر ويقتل لردته. وساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس. وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبو حنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل ولا يستتاب منه، والمسلم والذمي والحر والعبد فيه سواء۔ (شامی : ٤/٢٤٠)
عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (صحيح مسلم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1446
بہت قیمتی اور مفید معلومات قیمتی موضوع کے لیے آپ کا شکریہ، اور اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب دیںحذف کریں