منگل، 23 جولائی، 2024

لڑائی لڑائی معاف کرو

مسجد میں جاکر نماز پڑھو

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! معاشرہ میں جب لوگ ساتھ رہتے ہیں تو بعض مرتبہ لڑائی جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں، اور لڑائی جھگڑوں کے اسباب میں عموماً تین چیزیں، زن، زر اور زمین ہوتی ہیں۔ انہیں اسباب کی ایک شاخ سیاسی دشمنی بھی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے آپسی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اور عداوتوں کو کسی بھی طرح ختم کیا جائے۔ اگر بالفرض کبھی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے فریق کو معاف کرکے جھگڑا ختم کردینا چاہئے، کیونکہ آپس میں صلح کرنے اور جھگڑا ختم کرنے کی قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بہت ترغیب دی گئی ہے۔ ذیل میں لڑائی جھگڑے کی مذمت سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑا لو ہو۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر ، اور اس کے ساتھ نامناسب مذاق مت کر، اور اس کے ساتھ ایسا وعدہ نہ کر کہ (جس کو تو پورا نہ کرسکے اور) وعدہ خلافی کرے۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھ کو یہ گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا رہے۔ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ کو ترک کردے حالانکہ جھوٹ باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں گھر تیار کیا جائے گا، اور جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ گھر بنایا جائے گا، اور جوشخص اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اوپر کے حصہ میں گھر بنایا جائے گا۔ (ابن ماجہ)

تشریح : یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، اس لئے اس حق کو چھوڑتا ہوں تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے تو اس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ذمہ داری لی ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکارِ دو عالم صلی للہ علیہ وسلم کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی ۔ ہاں اگر کہیں معاملہ بہت آگے بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہوتو ایسی صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم کا مقابلہ کرے اور اس سے بدلہ لے لے، لیکن حتی الامکان کوشش یہ ہو کہ جھگڑا ختم ہوجائے۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے، اور اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے، بلکہ درجِ ذیل حدیث شریف کی رُو سے نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر) فرمایا : کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے درمیان صلح کرانا۔ اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں۔ یعنی یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈنے والی ہیں (انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ سے ختم ہوجاتا ہے)۔ (ترمذی)

ان احادیث کی روشنی میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ جھگڑوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہے، آج آپ کو موقع ملا تو آپ نے اپنے مخالف کو نقصان پہنچا لیا، کل اُسے موقع ملے گا تو وہ آپ کو نقصان پہنچائے گا، اور یہ سلسلہ زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کی طرح چلتا رہے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کو ختم فرما دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن شیر وشکر ہوگئے، ایک دوسرے کی جان لینے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آپ کے جانی دشمن اور آپ کو ہر طرح سے تکلیف پہنچانے والے جب بے بس کھڑے تھے اور دس ہزار تلواریں آپ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں کہ ان کی گردنیں ان کے سروں سے اتار دی جائیں تو ایسے وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ پر پوری طرح قابو پاچکے تھے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بغیر کسی شرط کے معاف کرکے معافی اور درگذر کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ انسانی میں ملنا مشکل ہے۔

 کیا یہ سارے واقعات صرف پڑھنے اور سننے کے لیے ہیں؟ کیا ہم ان پر عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت سنوار نہیں سکتے ؟ کیا ہم دوسروں کو معاف کرکے امن اور سکون والی زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیا ہم دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا کر اجر عظیم کے مستحق بننے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ کیا ہم میں سے کوئی نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، جنتی جوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دو گروہوں میں صلح کروانے والی اس اہم سنت اور خوبی کو زندہ کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب صرف تماشہ دیکھنے اور مزا لینے والے ہیں؟ یا پھر ذاتی مفاد کے لیے دو لڑنے والوں کو آپس میں مزید لڑانے والے بن رہے ہیں؟ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات : ۱۰)
ترجمہ : حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان (اگر کوئی رنجش یا لڑائی ہوگئی ہو تو تمہیں چاہئے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور) تعلقات اچھے بناؤ، اور (صلح کرانے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔ (آسان ترجمہ قرآن : ۳/ ۱۵۸۳)

بچپن میں جب بچوں کی آپس میں لڑائی ہوا کرتی ہے تو فوراً ہی صلح بھی ہوجایا کرتی ہے، اور عموماً کوئی تیسرا صلح کروایا کرتا تھا اور صلح کروانے والا یہ جملہ کہتا تھا کہ لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔ آج ہم بھی ہر طرح کے جھگڑے کرنے والوں سے خواہ وہ ذاتی ہوں یا سیاسی، ان سے یہی کہیں گے کہ اللہ کے لیے لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔


اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور بوقت ضرورت صلح کرنے اور کرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں