ہفتہ، 13 جولائی، 2024

آیت کریمہ "لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک الخ" کا ترجمہ وتفسیر


سوال :

محترم مفتی صاحب ! سورہ فتح کی دوسری آیت لیغفرلک اللہ ما تقدم الخ کا ترجمہ اس طرح کرنا کہ اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے۔ کیا اس طرح ترجمہ کرنا صحیح ہے؟ کیا گناہ اور خطاء کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے؟ مکمل وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سورہ فتح کی یہ آیت صلح حدیبیہ سے واپسی کے وقت نازل ہوئی تھی، جس کے ترجمہ اور تفسیر میں تمام مفسرین نے یہی لکھا جو سوال نامہ میں مذکور ہے۔ ذیل میں ہم چند معتبر تفاسیر نقل کرتے ہیں جن کی طرف ہر مسلک کے علماء رجوع کرتے ہیں۔

تفسیر بغوی میں ہے : 
محمد بن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول ” اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا، فسبح بحمد ربک واستغفرہ “ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔” ماتقدم من ذنبک “ جاہلیت میں رسالت سے پہلے اور ” وما تاخر “ اس سورت کے نزول کے وقت تک اور کہا گیا ہے کہ ” وما تاخر “ ان میں سے جو آگے ہوں گے اور یہ ان لوگوں کے طریقہ پر جو انبیاء (علیہم السلام) سے صغائر کے صادر ہونے کو ممکن قرار دیتے ہیں اور سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم “ جو جاہلیت میں عمل کیے اور ” ماتاخر “ ہر وہ چیز جو ابھی عمل میں نہیں آئی اور اس کی مثل کلام تاکید کے لئے ذکر کی جاتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ” اعطی من راہ ولم یرہ “ کہ جس کو دیکھا اس کو بھی دیا اور جس کو نہیں دیکھا اس کو بھی دیا اور ” ضرب من لقیہ ومن لم یلقہ “ جس کو ملا اس کو بھی مار اور جس کو نہیں ملا اس کو بھی۔ عطاء خراسانی (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم بن ذنبک “ یعنی آپ کے والدین آدم وحوا (علیہما السلام) کی لغزش آپ (علیہ السلام) کی برکت سے ” وما تاخر “ آپ (علیہ السلام) کی امت کے گناہ آپ (علیہ السلام) کی دعا کے ذریعہ سے۔ (١)

تفسیر قرطبی میں ہے :
علماء نے تاخر کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد کہ ان اعلان نبوت سے قبل جو آپ سے ایسے اعمال ہوئے جن کو آپ اپنی شان کے خلاف خیال کرتے ہیں اور سے مراد اعلان نبوت کے بعد جو اعمال ہوئے : یہ مجاہد کا قول ہے، اسی کی مثل طبری اور سفیان ثوری نے کہا : طبری نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (نصر) کی طرف راجع ہے یعنی اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد اس آیت کے نزول تک۔
سفیان ثوری نے کہا : سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو وحی کے نزول سے پہلے آپ نے دور جاہلیت میں کئے اور سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو بعد آپ نے نہ کیئے یہ واحدی کا قول ہے سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ انبیاء سے گناہ صغیرہ صادر ہو سکتے ہیں : یہ ایک قول ہے۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد فتح سے پہلے اور وماتاخر سے مراد جو اس کے بعد ہیں۔
عطا خراسانی نے کہا : سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کی خطا ہے اور و ماتاخر سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں، ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف اولی اعمال اور وماتاخر سے مرا دانبیاء کے خلاف اولی اعمال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد غزوہ بدر کے دن کی خطا اور وماتاخر سے مراد غزوہ حنین کے موقع کی خطا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر جو خطا ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو زمین میں کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ نے اس قول کو کئی دفعہ دہرایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی آپ کو کیسے علم ہوا کہ اگر میں نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو میری کبھی بھی عبادت نہیں کی جائے گی؟ تو یہ وہ پہلی خطا تھی۔ جہاں تک دوسری خطا کا تعلق ہے تو وہ غزوہ حنین کا موقع ہے جب لوگ شکست کھا گئے تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی ابو سفیان سے کہا : مجھے وادی سے نگریزوں کی ایک مٹھی اٹھا کر ددو تو دونوں نے سنگریزے اٹھا کردیئے آپ نے انہیں ہاتھ میں لیا اور مشرکوں کے منہ پر مارا اور فرمایا : تو مشرک سارے کے سارے شکست کھا گئے کوئی آدمی نہ بچا مگر اس کی آنکھیں ریت اور سنگریزوں سے بھر گئیں پھر آپ نے اپنے ساتھوں کو ندا کی تو وہ پلٹ آئے جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں فرمایا : اگر میں انہیں وہ مٹھی بھر سنگریزے نہ مارتا تو وہ شکست نہ کھاتے “ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى۔ ترجمہ : (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ (الانفال 17) یہ دوسری خطا تھی۔ ابو علی روز باری نے کہا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر آپ کی کوئی پرانی یا نئی خطا ہوگی تو ہم آپ کے لئے اسے بخش دیں گے۔ (٢)

ہم نے یہاں متعدد دلائل اس بات پر نقل کردئیے ہیں کہ آیت کریمہ لیغفرلک اللہ الخ کے ترجمہ میں گناہ، خطا، لغزش، فروگذاشت وغیرہ لکھنا اور بولنا اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہمارے بنیادی عقائد میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی طرف قرآن میں جہاں کہیں ذنب یا عصیان وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے گئے وہ ان کے مقام عالی کی مناسبت سے ایسے کاموں کے لئے استعمال کئے گئے جو خلاف اولیٰ تھے مگر نبوت کے مقام بلند کے اعتبار سے غیر افضل پر عمل کرنا بھی ایسی لغزش ہے، جس کو قرآن نے بطور تہدید کے ذنب و گناہ سے تعبیر کیا ہے اور ماتقدم سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور ماتأخر سے مراد وہ لغزشیں جو رسالت و نبوت کے بعد صادر ہوئیں جیسا کہ درج بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے، اور یہی جمہور مفسرین کا مذہب ہے، اس سے الگ تفسیر بیان کرنا جیسا کہ عطاء خراسانی نے بیان کی ہے تو یہ تفسیری اصول وضوابط کے مطابق نہیں ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

حکیم الامت علامہ تھانوی رحمہ اللہ نے اسی بحث سے متعلق کیسی پیاری اور دل لگتی باتیں ارشاد فرمائی ہیں، ملاحظہ فرمائیں اور اپنے قلوب کو مزید مجلی ومصفی بنائیں :

فرمایا کہ کسی نے دریافت کیا کہ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ فرمایا معاً قلب میں جواب میں یہ بات آئی کہ جب کوئی شخص نہایت خائف ہوتا ہے۔ تو وہ ڈر کر کہا کرتا ہے کہ مجھ سے جو قصور ہوگیا ہو معاف کردیجئے حالانکہ اس سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہوتا۔ اس طرح دوسرا اس کی تسلی کے لئے کہہ دیتا ہے۔ کہ اچھا ہم نے تمہارا قصور سب معاف کیا اسی طرح چونکہ اس خیال سے آپ کو غم رہا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی۔

لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر اس میں ایک تو یہ بحث ہے کہ ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ صاحب نبوت کے حق میں جو کہ معصوم ہے یہ بحث جداگانہ ہے اس کو مسئلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پر مقصود اس کے ذکر سے یہ ہے کہ پہلے گناہوں کی معافی تو سمجھ میں آسکتی ہے لیکن پچھلے گناہوں کی معافی جو ابھی تک ہوئے ہی نہیں۔ کیا معنی۔ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چونکہ خوف و خشیت کا غلبہ تھا اگر آپ کو آئندہ گناہوں کی معافی دے کر تسلی نہ دی جاتی تو اندیشہ تھا کہ غلبہ خوف سے اسی فکر میں آپ پریشان رہتے کہ کہیں آئندہ امر خلاف مرضی نہ ہوجائے۔ اس لئے آپ کو آئندہ کے لئے بھی مطمئن کردیا گیا۔

یہاں ایک عاشقانہ نکتہ ہے وہ یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ حالانکہ واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید مجھ سے کچھ گناہ ہوگیا ہو۔ تو اس شبہ کو بھی رفع فرما دیا گیا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے عاشق اپنے محبوب سے رخصت ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میری خطا معاف کر دیجئے گا۔ حالانکہ عاشق سے خطا کا احتمال کہاں۔ خصوصاً ایسا عاشق جو عشق کے ساتھ عقل بھی کامل رکھتا ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو بڑی شان ہے۔ (اشرف التفاسیر : ٤/٥٢)

امیدِ قوی ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کے اشکالات دور ہوگئے ہوں گے اور آپ کو تسلی وتشفی ہوگئی ہوگی۔


١) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ، وليدخل الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ الْآيَةَ.
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ: إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (١) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجًا (٢) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ [النَّصْرُ: ١- ٣]، لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الرِّسَالَةِ، وَمَا تَأَخَّرَ إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هذه السورة. وقيل: ما تَأَخَّرَ مِمَّا يَكُونُ، وَهَذَا عَلَى طَرِيقَةِ مَنْ يُجَوِّزُ الصَّغَائِرَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِمَّا عَمِلْتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا تَأَخَّرَ كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تعمله، وبذكر مِثْلُ ذَلِكَ عَلَى طَرِيقِ التَّأْكِيدِ، كَمَا يُقَالَ: أَعْطَى مَنْ رَآهُ ولم يَرَهُ، وَضَرَبَ مَنْ لَقِيَهُ وَمَنْ لَمْ يَلْقَهُ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ: يَعْنِي ذَنْبَ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ بِبَرَكَتِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ ذُنُوبُ أُمَّتِكَ بِدَعْوَتِكَ۔ (التفسیر البغوی : ٤/٢٢٣)

٢) وَاخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي مَعْنَى«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ» فَقِيلَ:«مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ.«وَما تَأَخَّرَ» بَعْدَهَا، قَالَهُ مُجَاهِدٌ. وَنَحْوَهُ قَالَ الطَّبَرِيُّ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ الطَّبَرِيُّ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى«إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ- إلى قوله- تَوَّابًا» «١» [النصر: ٣ - ١].«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ«وَما تَأَخَّرَ» إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ:«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» مَا عَمِلْتَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُوحَى إِلَيْكَ.«وَما تَأَخَّرَ» كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تَعْمَلْهُ، وَقَالَهُ الْوَاحِدِيُّ. وَقَدْ مَضَى الْكَلَامُ فِي جَرَيَانِ الصَّغَائِرِ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ فِي سُورَةِ«الْبَقَرَةِ» «٢»، فَهَذَا قَوْلٌ. وقيل:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ الْفَتْحِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَ الْفَتْحِ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَهَا. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ:» مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ«يَعْنِي مِنْ ذَنْبِ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ أُمَّتِكَ. وَقِيلَ: مِنْ ذَنْبِ أَبِيكَ إِبْرَاهِيمَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ النَّبِيِّينَ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ بَدْرٍ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ حُنَيْنٍ. وَذَلِكَ أَنَّ الذَّنْبَ الْمُتَقَدِّمَ يَوْمَ بَدْرٍ، أَنَّهُ جَعَلَ يَدْعُو وَيَقُولُ:» اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا«وَجَعَلَ يُرَدِّدُ هَذَا الْقَوْلَ دَفَعَاتٍ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ أَنِّي لَوْ أَهْلَكْتُ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا أُعْبَدُ أَبَدًا، فَكَانَ هَذَا الذَّنْبُ الْمُتَقَدِّمُ. وَأَمَّا الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ فَيَوْمَ حُنَيْنٍ، لَمَّا انْهَزَمَ النَّاسُ قَالَ لِعَمِّهِ الْعَبَّاسِ وَلِابْنِ عَمِّهِ أَبِي سُفْيَانِ:] نَاوِلَانِي كَفًّا مِنْ حَصْبَاءِ الْوَادِي [فَنَاوَلَاهُ فَأَخَذَهُ بِيَدِهِ وَرَمَى بِهِ فِي وُجُوهِ الْمُشْرِكِينَ وَقَالَ:] شَاهَتِ الْوُجُوهُ. حم. لَا يُنْصَرُونَ [فَانْهَزَمَ الْقَوْمُ عَنْ آخِرِهِمْ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ رَمْلًا وَحَصْبَاءَ. ثُمَّ نَادَى فِي أَصْحَابِهِ فَرَجَعُوا فَقَالَ لَهُمْ عِنْدَ رُجُوعِهِمْ:] لَوْ لَمْ أَرْمِهِمْ لَمْ يَنْهَزِمُوا [فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﷿» وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى ««١» [الأنفال: ١٧] فَكَانَ هَذَا هُوَ الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ. وَقَالَ أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ: يَقُولُ لَوْ كَانَ لَكَ ذَنْبٌ قَدِيمٌ أَوْ حَدِيثٌ لَغَفَرْنَاهُ لَكَ۔ (التفسیر القرطبی : ١٦/٢٦٢)افقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 محرم الحرام 1446

3 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ ، ایک علمی نکتہ کو بہترین عالمانہ انداز میں رکھا گیا۔۔۔اللہ آپکو جزائے خیر دے۔۔۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. واقعی حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کے ارشادات سے دل مصفی و مجلی ہو گیا

    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں