سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں
زید مونسپل کارپوریشن میں ٹھیکیداری کرتا ہے کاپوریشن میں سسٹم یہ ہے کہ کچھ کام کاپوریشن کے ملازمین ضرورت کے حساب نکالتے ہیں اور کچھ کام عوامی نمائندے نکالتے ہیں
کارپوریشن کے سالانہ بجٹ میں عوامی نمائندوں کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اور کارپوریشن کے ملازمین جو نکالتے ہیں اس کا بجٹ الگ ہوتا ہے۔ جو بھی کام ہوتا ہے اس کی اپنی سرکاری ایک قیمت مقرر ہوتی ہے۔ اس کے مطابق ٹھیکے دار کو ٹینڈر بھرنا ہوتا ہے۔ جو ٹھیکے دار کم سے کم میں وہ کام کرنے کو تیار ہوتا ہے اس کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ ہر کام کے لیے کام کی لمبائی چوڑائی موٹائی اور کوالٹی لکھ کر دی جاتی ہے
کہ اپ کو اس معیار کا اور اتنی مقدار میں کام کرنا ہے۔ کام ہونے کے بعد دوسرے سرکاری ادارے سے کچھ لوگ آتے ہیں اس کام کو چیک کرتے ہیں موج ماپ کرتے ہیں اچھی طریقے سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اگر اس میں کچھ خامی اور مسٹیک نکلی تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا اندازاً تخمینہ لگا کر وہ پیسہ کاٹ لیا جاتا ہے۔
کچھ ٹھیکے دار نمبر 1 ٹھیکے دار ایسے ہوتے ہیں جو ناقص اور غیر معیاری کام کر کے سیاسی اثر رسوخ اور رشوت کے بل بوتے پر اپنا بل پاس کروا لیتے ہیں۔
مگر کچھ ٹھیکے دار نمبر 2 ٹھیکے دار ایسے بھی ہیں جو مطلوبہ مقدار اور مطلوبہ کوالٹی میں کام کرتے ہیں بلکہ مقدار میں کچھ بڑھا کر کرتے ہیں۔ اور ان کو دوسرے سرکاری محکمے کے جو چیکنگ پر افسران آتے ہیں وہ لوگ کلیئر لکھ کر بھی دیتے ہیں کہ اپ کا کام برابر ہے مقدار میں بھی کوالٹی میں بھی جس کو کارپوریشن کی زبان میں تھرڈ پارٹی رپورٹ کہا جاتا ہے۔ کارپوریشن میں رشوت دونوں ٹھیکے داروں سے لی جاتی ہے جو اچھا کام کرتے ہیں ان سے بھی اور جو ناقص کام کرتے ہیں ان سے بھی فرق یہ ہے کہ جو اچھا کام کرتے ہیں افسران ان سے کم سے کم رشوت لیتے ہیں اور ان تمام ٹیبل کے اخراجات کو اور لاگت کو جوڑنے کے بعد سرکاری قیمت کے اعتبار سے جب بل بنتا ہے تو ٹھیکیدار کو اچھا خاصا پیسہ بچتا ہے
اور جو کام عوامی نمائندوں کے بجٹ سے ہوتا ہے اس کا ٹینڈر نکلنے کے بعد عوامی نمائندے کو اس کے محنتانے کے طور پر کچھ پیسہ دینا پڑتا ہے جو ٹھیکے دار اور عوامی نمائندے کے درمیان طے شدہ ہوتا ہے۔ بہت سارے احباب کا کہنا ہے کہ کارپوریشن کی ٹھیکیداری سرے سے جائز ہی نہیں ہے وہ پیسہ حلال ہی نہیں ہے جس میں رشوت دینا پڑتا ہے۔ جبکہ اچھا اور صحیح کام کرنے والے ٹھیکے داروں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ بالکل حلال ہے، اگرچہ ہم کو بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں بتائیں گے کیا کارپوریشن میں ٹھیکے داری کرنا جائز ہے؟صحیح اور اچھا کام کرنے کے بعد بھی رشوت دینی پڑتی ہے اگرچہ خراب کام کرنے والوں کے مقابل میں رشوت کی رقم بہت کم ہو جاتی ہے مگر دینا پڑتا ہے۔ ٹھیکے دار نمبر 2 جو اوپر درج جو ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی کام کے لیے رشوت کا لین دین شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث شریف میں رشوت دینے والے، لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ لہٰذا ٹھیکہ لینے کے لیے بھی رشوت دینا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ کہ قانونی طریقۂ کار کے مطابق ہی ٹھیکہ حاصل کرے ۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ زید قانونی طور پر ٹھیکہ لینے کا حق دار اور اہل ہو، اور کوئی دوسرا شخص اس سے زیادہ حق دار نہ ہو، نہ ہی مساوی درجے کے لوگوں یا کمپنیوں میں اپنے آپ کو آگے کرنا مقصد ہو، (یعنی ٹھیکہ لینے کے لیے قانوناً جو اصول، شرائط اور معیار طے ہوں ان میں زید سب سے فائق ہو) اور رشوت دئیے بغیر قانونی طریقۂ کار کے مطابق ٹھیکہ حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں رشوت دے کر ٹھیکہ حاصل کرنے کی گنجائش ہے اور زید کی کمائی بھی حلال ہوگی، اسے ناجائز اور حرام سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ لینے والوں کے لیے (خواہ وہ کارپوریشن کے کرمچاری یا عوامی نمائندے ہوں) بہر صورت رشوت لینا سخت ناجائز اور حرام ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں اصولی بات لکھ دی ہے، اگر زید اس کے مطابق ٹھیکہ لیتا ہے اور شرائط کے مطابق ایمانداری سے کام کرتا ہے تو اس کا ٹھیکہ لینا درست ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہے۔
وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)
عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم)
عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبی ﷺ : الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، ۱/۵۵۰، رقم : ۲۰۲۶)
والإسلام یحرم الرشوۃ في أي صورۃ کانت وبأي اسم سمیت فسمیتہا باسم الہدیۃ لا یخرجہا عن دائرۃ الحرام إلی الحلال۔ (الحلال والحرام في الإسلام ۲۷۱، بحوالہ محمودیہ ڈابھیل۱۸/۴۶۳)
لَوْ اُضْطُرَّ إلَى دَفْعِ مَرْشُوَّةٍ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ جَازَ لَهُ الدَّفْعُ وَحَرُمَ عَلَى الْقَابِضِ۔ (شامی : ٥/٧٢)
فأما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود : ۱۱؍۲۰۶)
وأما إذا دفع الرشوۃ لیسوي أمرہ عند السلطان حل للدافع ولا یحل للآخذ۔ (إعلاء السنن : ۱۵؍۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 محرم الحرام 1446
السلام علیکم مفتی صاحب درج بالا سوال میں عوامی نمائندہ جوپیسہ ٹھکے دار سے لیتا ہے اس کے بدلے میں وہ اپنا خود کا بجٹ دیتا ہے اور کاغذی کاروائی میں اس کی بھرپور مدد کرتا ہے اور عوامی یا سرکاری انے والی تکلیفوں کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے جس کے بدلے میں وہ محنتانہ کے طور پر کچھ پرسنٹ لیتا ہے اس طریقے سے عوامی نمائندے کا پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں
جواب دیںحذف کریںوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںیہ سب اس کی ذمہ داریوں میں سے ہے، اور اس کے لیے اسے کوئی قابل ذکر محنت بھی نہیں کرنا پڑتا ہے، لہٰذا اس کے لیے ٹھیکیدار سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم