سوال :
مفتی صاحب ! اس مرتبہ منی میں جمعہ کا دن آرہا ہے، تو کیا ہم لوگوں کو وہاں جمعہ پڑھنا ہے؟ اگر پڑھنا ہے تو کس طرح ؟ مکمل مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی مجاہد ملی، بسمت)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موسم حج میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ اور بعد کے تمام فقہاء کے نزدیک منی میں جمعہ جائز بلکہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ موسم حج میں منی تمام شہروں کی طرح باقاعدہ ایک شہر بن جاتا ہے اس کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ حج میں منی میں حکام، سرکاری عملہ، ہسپتال، فوج کے خیمہ وغیرہ سب موجود ہوتے ہیں، نیز باقاعدہ شہر کی گلی کوچوں کی طرح منی میں گلی کوچے بھی ہوتے ہیں اور دکانیں بھی لگ جاتی ہیں، حجاج کرام کم وبیش اپنی ضروریات کی چیزیں منی سے حاصل کرتے ہیں یہی شہر کی تعریف ہے، اس لئے منی میں بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔
اس کے دلائل ملاحظہ فرمائیں :
بنایہ شرح ہدایہ میں اس کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے :
وَلَہُمَا أَيْ لِأَبِيْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِيْ یُوْسُفَ لِأَنَّہُا أَيْ لِأَنَّ مِنٰی تَتَمَصَّرُ أَيْ تَصِیْرُ مِصْرًا فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ لِمَا یَکُوْنُ فِیْہَا أَسْوَاقٌ وَفِیْہَا سُلْطَانٌ أَوْ نَائِبُہٗ، وَقَاضِي فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ فَتَصِیْرُ کَسَائِرِ الأمْصَارِ۔ (البنایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، نعیمیہ دیوبند ۳/ ۴۸)
ترجمہ : حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور ابو یوسفؒ کے نزدیک منی میں جمعہ جائز ہونے کی علت یہ ہے کہ بے شک منی موسم حج میں باقاعدہ شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ اس میں بازار کی طرح دکانیں بھی ہوتی ہیں اور اس میں حاکم یا اس کے قائم مقام نائب ہوتا ہے اور موسم حج کا قاضی بھی ہوتا ہے؛ لہٰذا وہ ایسا شہر بن جاتا ہے جیسا کہ دیگر تمام شہر ہوتے ہیں۔
اس کو ’’البحر الرائق‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے :
وَالصَّحِیْحُ أَنَّہٗ مبني عَلٰی أَنَّہَا تَتَمَصَّرُ فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ عِنْدَہُمَا؛ لِأَنَّ لَہَا بِنَائٌ، وَتُنْقَلُ إِلِیَہَا الأسْوَاقُ وَیَحْضُرُہَا وَالٍ وَقَاضٍ بِخِلافِ عَرَفَاتٍ؛ لِأَنَّہَا مَفَازَۃٌ فَلا تَتَمَصَّرُ بِاجْتِمَاعِ النَّاسِ وَحَضْرَۃِ السُّلْطَانِ۔ (البحر الرائق، باب صلاۃ الجمعۃ، کوئٹہ ۲/ ۱۴۲، زکریا ۲/ ۲۴۹)
ترجمہ : اور صحیح یہی ہے کہ منی بے شک موسم حج میں حضرات شیخینؒ کے نزدیک شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ منی میں موسم حج میں دن ورات کی رہائشی عمارتیں اور جھوپڑے ہوتے ہیں اور بازار منتقل ہوجاتا ہے اور اس میں حاکم اور قاضی موجود ہوتے ہیں، برخلاف عرفات کے اس لئے کہ عرفات صحراء ہے (دن ورات کے رہائشی جھوپڑے اور عمارتیں نہیں ہیں) لہٰذا عرفات لوگوں کے جمع ہونے اور حاکم کی حاضری کی وجہ سے شہر نہیں بنے گا۔
اس کو صاحب در مختار نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے :
وَجَازَتِ الْجُمُعَۃُ بِمِنٰی فِي الْمَوْسِمِ فَقَطْ لِوُجُوْدِ الْخَلِیْفَۃِ أَوْ أَمِیْرِ الْحِجَازِ أَوْ الْعِرَاقِ أَوْ مَکَّۃَ وَوُجُوْدِ الأسْوَاقِ وَالسِّکَکِ، وَکَذَا کُلُّ أَبْنِیَۃٍ نَزَلَ بِہَا الْخَلِیْفَۃُ وَعَدْمُ التَّعْیِیْدِ بِمِنٰی لِلتَّخْفِیْفِ لاَ تَجُوْزُ لاِمَیرِ الْمَوْسِمِ لِقُصُوْرِ وَلَایَتِہٖ عَلٰی أُمُوْرِ الْحَجِّ حَتّٰی لَوْ أَذِنَ لَہ جَازَ۔ (الدر مع الرد، باب الجمعۃ، کراچی ۲/ ۱۴۴، زکریا ۳/ ۱۴، ۱۵)
ترجمہ : صرف موسم حج میں منی میں جمعہ جائز ہے خلیفۂ حجاز، عراق یا مکہ کے امیر کے موجود ہونے کی وجہ سے اور بازاروں اور دکانوں کے موجود ہونے کی وجہ سے اور اس میں گلی کوچے ہونے کی وجہ سے ایسا ہی ہر اس آبادی کا حکم ہوتا ہے جس میں حاکم کا عارضی قیام ہوتا ہے اور منی میں عید کی نماز حاجیوں کی تخفیف کی غرض سے نہیں ہوتی ہے اور موسم کے امیر کے لئے جائز نہیں ہے، حاجیوں کے امور پر ولایت تامہ کی کمی کی وجہ سے یہاں تک کہ اگر امیر موسم کو حاکم کی طرف سے اجازت ہوجائے تو اس کے لئے جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔
اس کو صاحب بدائع نے ان الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے :
وَہُمَا یَقُوْلانِ: إِنَّہَا تَتَمَصَّرُ فِي أَیَّامِ الْمَوْسِمِ؛ لِأَنَّ لَہَا بِنَاء وَیُنْقَلُ إِلَیْہَا الأَسْوَاقُ وَیَحْضُرُہَا وَالٍ یُقِیْمُ الْحُدُوْدَ وَیَنْفُذُ الأحْکَامَ فَالْتَحق بِسَائِرِ الأمْصَارِ۔ (بدائع، کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط الجمعۃ، زکریا ۱/ ۵۸۶)
اور حضرات شیخینؒ فرماتے ہیں کہ بے شک منی موسم حج میں شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ منی میں رہائشی جھوپڑے اور مکانات ہیں اور بازار منتقل ہوجاتا ہے اور ایسا حاکم موجود ہوتا ہے جو حدود قائم کرسکتا ہے اور احکام نافذ کرسکتا ہے؛ لہٰذا موسم حج میں منی تمام شہروں کی طرح ایک شہر کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔
یاد رکھیں کہ منی میں قدیم زمانہ سے گاؤں کی شکل میں عرب بدؤوں کے مکانات تھے، اب حاجیوں کی ضرورت کی عمارتیں اور خیمے ہیں۔ (مستفاد : فتاوی قاسمیہ : ١٢/٣٨٩)
لہٰذا جو حجاج کرام مکہ، منی، مزدلفہ اور عرفات ملاکر اگر پندرہ دن قیام کی نیت رکھتے ہوں تو وہ مقیم ہیں، اور انہیں منی ، مزدلفہ میں جمعہ کا قیام کرنا ضروری ہے۔ اور جن حجاج کرام کی پندرہ دن قیام کی نیت نہیں ہے وہ مسافر ہیں، ان پر جمعہ قائم کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے دو رکعت ظہر قصر ادا کرنے کا حکم ہے۔ البتہ اگر وہ جمعہ قائم کرلیں تو ان کا جمعہ ادا ہوجائے گا اور ان سے ظہر کی نماز ساقط ہوجائے گی۔
نماز جمعہ کے لیے کم از کم چار افراد کا ہونا شرط ہے، چار افراد ہوں تو یہ لوگ باجماعت نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں۔ اگر چار افراد سے کم ہوں تو پھر جمعہ درست نہ ہوگا، ایسے لوگ ظہر باجماعت ادا کریں یا انفرادی ادا کریں دونوں درست ہے۔
اگر چار افراد یا اس سے زائد ہوں تو اس صورت میں نماز جمعہ باجماعت ادا کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ زوال کے بعد جمعہ کی پہلی اذان دی جائے، اور چار رکعت سنت کی ادائیگی کے دوسری اذان خطیب کے سامنے دی جائے۔ اذان کے بعد خطیب کھڑا ہوکر پہلا خطبہ دے اس کے بعد تین چھوٹی آیات پڑھنے کے بقدر بیٹھ جائے پھر دوسرا خطبہ دے، خطبہ مکمل ہونے کے بعد اقامت کہی جائے اور امام دو رکعت نماز جہراً پڑھا دے۔ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر کا ہونا شرط نہیں، بلکہ مسنون ہے، لہٰذا خیمہ وغیرہ میں جمعہ ادا کرنے کی صورت میں کرسی یا اسٹول وغیرہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔
نماز جمعہ میں چونکہ خطبہ دینا شرط ہے۔ اس کے بغیر جمعہ درست نہیں ہوگا۔ پس یہاں یہ مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ صاحبین ؒ کے نزدیک خطبہ کی کم سے کم مقدار تشہد کے بقدر ہے اس سے کم مکروہ ہے۔ لہٰذا حاضرین میں کوئی عالم یا خطبہ دینے کے لائق شخص نہ ہوتو وہ دونوں خطبوں میں آیت الکرسی یا سورہ فاتحہ پڑھ لے تو خطبہ ادا ہوجائے گا اور نماز جمعہ درست ہوجائے گی۔
ذیل میں دو مختصر اور جامع خطبات نقل کیے جارہے ہیں، اگر کوئی اسے آسانی سے پڑھ سکتا ہوتو سنت پر عمل ہوجائے گا، اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرے۔
*خطبہ اولیٰ*
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ۞ اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞
اَمَّابَعْدُ ! فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ۞ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاُمَّةِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۞اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ۞اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ۞
*خطبہ ثانیہ*
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه و سلم، خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ۞اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۞ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۞ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞
دلائل :
عَنْ سالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لا تُجْمَعُ صَلاةٌ واحِدَةٌ فِي مَسْجِدٍ واحِدٍ مَرَّتَيْنِ۔ (المدونۃ : ١/١٨١)
وَمُقْتَضَى هَذَا الِاسْتِدْلَالِ كَرَاهَةُ التَّكْرَارِ فِي مَسْجِدِ الْمَحَلَّةِ وَلَوْ بِدُونِ أَذَانٍ؛ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ: لَوْ دَخَلَ جَمَاعَةٌ الْمَسْجِدَ بَعْدَ مَا صَلَّى فِيهِ أَهْلُهُ يُصَلُّونَ وُحْدَانًا وَهُوَ ظَاهِرُ الرِّوَايَةِ۔ (شامی : ١/٥٥٣)
ولو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع، والقریۃ کبیرۃ لہا قری، وفیہا والٍ، وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا…والمسجد الجامع لیس بشرط؛ ولہذا أجمعوا جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (حلبي کبیر، فصل صلاۃ الجمعۃ، ص:۵۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں