سوال :
میری بیوی دو سال پہلے مجھ سے خلع لے چکی ہے، لیکن اب میں پھر سے اُسی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں نے صرف ایک طلاق دیا تھا اسکے بعد ہم کبھی رجوع نہیں ہوئے، وہ اپنے میکے میں ہی رہ رہی ہے۔ اب دوبارہ اس سے نکاح کرنا ہے تو اس میں کیا حلالہ کی ضرورت ہوگی؟ یا بغیر حلالہ کیے نکاح کر سکتا ہوں؟
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی تو ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے۔ البتہ عدت کی مدت تین ماہواری گزرنے کے بعد یہ طلاق، طلاق بائن بن گئی۔
طلاقِ بائن کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے کے بعد آپ کی بیوی آپ کے نکاح سے نکل گئی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ آپ سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں حلالۂ شرعیہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ اب آپ کو صرف دو طلاق کا حق حاصل رہے گا۔
بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے کہ جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں بھی عدت گذر جانے کے بعد تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، جب تک تین طلاق نہیں دی جائے گی تین طلاق واقع نہیں ہوگی۔
عن سماکؓ قال : سمعت عکرمۃؓ یقول : الطلاق مرتان : فإمساک بمعروف، أو تسریح بإحسان، قال: إذا طلق الرجل امرأتہ واحدۃ فإن شاء نکحہا، وإذا طلقہا ثنتین فإن شاء نکحہا، فإذا طلقہا ثلاثاً فلا تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ما قالوا في الطلاق مرتان، ۱۰/۱۹۷، رقم:۱۹۵۶۴)
أما الطلاق الرجعي: فالحکم الأصلي لہ ہو نقصان العدد، فأما زوال الملک وحل الوطئ، فلیس بحکم أصلي لہ لازم، حتی لا یثبت للحال، وإنما یثبت في الثاني بعد انقضاء العدۃ، فإن طلقہا ولم یراجعہا؛ بل ترکہا حتی انقضت عدتہا بانت۔ (بدائع الصنائع : ۴؍۳۸۷)
وینکح مبانتہ بما دون الثلاث في العدۃ و بعدہا بالإجماع۔ (تنویر الأبصار : ۳؍۴۰۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1445
ماشاءاللہ اللہ آپ کے علم و عمل برکت عطا کریں.آمین
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں