سوال :
مفتی صاحب ! طوافِ زیارت کا وقت اور اس کا طریقہ بتادیں، زید اور اس کی بیوی بہت زیادہ ضعیف ہیں، اس لیے وہ چاہ رہے ہیں کہ طوافِ زیارت دس ذی الحجہ سے پہلے ہی کرلیں، تاکہ اُس وقت کی بھیڑ سے محفوظ رہیں، تو کیا ان کا ایسا کرنا درست ہے؟ طوافِ زیارت ادا ہوجائے گا؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طوافِ زیارت کا اصل وقت دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے۔ لیکن اگر اس وقت میں طواف نہیں کیا تو بعد میں بھی کرنا ہوگا، یہ ذمہ پر باقی رہتا ہے، البتہ بلاعذرِ شرعی بارہ ذوالحجہ کے غروب آفتاب کے بعد ادا کرنے کی وجہ سے دم واجب ہوگا۔
طوافِ زیارت کا طریقہ وہی ہے جو عام طواف کا ہے، البتہ اگر بعد میں سعی کرنے کا ارادہ ہے تو پہلے تین چکروں میں رمل اور اضطباع کیا جائے گا۔ اور اگر حج کی سعی پہلے کرچکا ہے، اور احرام کھولنے کے بعد طوافِ زیارت کررہا ہے تو نہ رمل کرے گا اور نہ ہی اضطباع کیا جائے گا، کیوں کہ رمل و اضطباع صرف اسی طواف میں ہوتا ہے جس کے بعد سعی کرنے کا ارادہ ہو۔
ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ وقوفِ عرفات سے قبل طوافِ زیارت نہیں ہوسکتا، کیونکہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک طوافِ زیارت کا وقت یوم النحر کی صبحِ صادق سے شروع ہوتا ہے، اور امام شافعی اور احمد کے نزدیک یوم النحر کی نصف شب کے بعد سے اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے، گویا یوم النحر کی نصف شب سے پہلے طوافِ زیارت کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے بھی اس کی گنجائش نہیں ہوگی کہ دس ذوالحجہ سے پہلے طوافِ زیارت کرلیا جائے، اگر کسی نے پہلے کرلیا تو اس کا طوافِ زیارت معتبر نہیں ہوگا، وقت ہونے کے بعد اس کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
واول وقتہ طلوع الفجر الثانی من یوم النحر فلا یصح قبلہ ویمتد وقت صحتہ الی اٰخر العمر لکن یجب فعلہ فی ایام النحر ولیالیہا المتخللۃ بینہما منہا، فلو اخرہ عنہا ولو الی الیوم الرابع الذی ہو اٰخر ایام التشریق ولیلتہ منہ کرہ تحریماً ولزمہ دم وہو الصحیح۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی الحجہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں