انصاف پسند عوام کی محنت رنگ لائی
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور )
قارئین کرام ! لوک سبھا انتخابات کے نتائج تقریباً مکمل ہونے کو ہیں، کانگریس اتحاد کو 230 اور بھاجپ کو 290 کے آس پاس سیٹیں مل رہی ہیں۔ جبکہ جس وقت لوک سبھا الیکشن کا بگل بجا تھا، اس وقت بھاجپ کی طرف سے انتہائی متکبرانہ نعرہ "اب کی بار، چار سو پار" بڑے زور شور سے لگایا جارہا تھا، اور رام مندر کے افتتاح اور اپوزیشن کے کمزور ہونے کی وجہ سے اس وقت ماحول بھی کچھ ایسا ہی بنا ہوا تھا کہ لگتا تھا کہ وہ اس عدد کے قریب پہنچ جائے۔ جبکہ بھاجپا ایک ایسی پارٹی ہے جس میں آپ کو ہر طرح کی برائیاں نظر آئیں، اس نے بدعنوانی اور کرپشن کی انتہاء کی ہے، مذہب کے نام پر عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری ہے، ایک دوسرے کو آپس میں لڑایا ہے، مہنگائی میں غیرمعمولی اضافہ کرکے دھنا سیٹھوں کو مزید امیر اور عوام کو مزید غریب کرنے کا کام کیا ہے۔ اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگاکر ان کو جیلوں میں بند کیا ہے یا پھر مجرموں کو بھاجپا جوائن کرلینے کے بعد ان کے سارے پاپ دھو دئیے گئے۔ جمہوریت کا ایک اہم ستون کہے جانے والے تقریباً پورے میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو خرید لیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے دور میں "گودی میڈیا" کی اصطلاح سامنے آئی۔ شریعت میں مداخلت کی ناکام کوشش کی گئی، یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ ساری باتیں اس طرف واضح اشارہ کررہی تھیں کہ یہ جمہوری ملک ڈکٹیٹر شپ کی طرف تیزی بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ اس خطرے کو علماء کرام، انصاف پسند لیڈران اور چھوٹے بڑے سینکڑوں یوٹیوبرس نے محسوس کرلیا، اور اس بات کی کوشش شروع کردی کہ کسی بھی طرح ایسی پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔
یہاں اس بات کا اظہار کردینا ضروری ہے کہ ہم کانگریس اتحاد کو کوئی دودھ کا دھلا اور پارسا نہیں سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہم نے اس سے بڑی بڑی امیدیں باندھی ہیں، لیکن اتنی بات تو بہرحال کہی جاسکتی ہے کہ وہ بھاجپ کی بہ نسبت کم نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا علماء کرام نے بھی اس بات کو عوام کے سامنے بڑی فکرمندی اور اچھے انداز میں رکھا، جس پر انصاف پسند عوام بالخصوص مسلمانوں نے لبیک کہا اور اپنی اخلاقی، سماجی اور دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے گرمی کی شدت کے باوجود سفر کرکے اور اپنا مال لگاکر ووٹنگ کی، جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ خود ہمارے حلقہ پارلیمنٹ میں بھی الحمدللہ بیس سالوں کے بعد ایک سیکولر پارٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا ہے اور مغرور بھاجپاکو چار سو سیٹیں کیا ملتیں ؟ اسے تو تین سو سیٹوں کے اندر ہی سمٹنا پڑگیا، اور اب حال یہ ہے کہ وہ خانہ جنگیوں کی وجہ سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہ ہو، لہٰذا اس موقع پر یہی شعر یاد آتا ہے کہ
سورج لہولہان ہے ہر شام دیکھ لے
اے زندگی غرور کا انجام دیکھ لے
انڈیا اتحاد کو اگرچہ اقتدار کا جادوئی عدد حاصل نہیں ہوا ہے، لیکن قوی امید ہے کہ وہ کوئی جگاڑ کرکے اپنی حکومت بنالے، اور اگر خدانخواستہ انڈیا اتحاد حکومت نہیں بناتا ہے تب بھی انصاف پسند عوام کی محنتوں سے بھاجپ کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کھڑا ہوچکا ہے جو ان شاءاللہ اس کے ناپاک منصوبوں کا کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
محترم قارئین ! یقیناً یہ ہمارے لیے ایک بڑی جیت اور خوشی کا موقع ہے۔ لیکن خوشی کے موقع پر ہمیں کس طرح رہنا ہے؟ اس کی تعلیم بھی ہمیں ہماری شریعتِ کاملہ میں ملتی ہے۔ لہٰذا ہم خوشی مناتے ہوئے کوئی ناجائز کام مثلاً آتش بازی، ڈھول باجے، ناچ گانے بالکل نہ کریں۔ بلکہ اسی رقم سے ہم اپنے علاقوں میں مٹھائیاں تقسیم کردیں، غریبوں کی کسی بھی طرح مدد کردیں، نماز شکرانہ ادا کریں، اور شریعتِ مطہرہ کی مکمل پیروی کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں کہ اس کے بغیر ہماری کوئی کامیابی، حقیقت میں کامیابی نہیں ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شہر اور ملک کو ایسا نمائندہ عطا فرمائے جو ہمارے شہر، ملک اور ہم سب کے حق میں خیر خواہ ہو اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمائے۔ آمین
ماشاء اللہ بہترین🌹
جواب دیںحذف کریںبہت خوب تحریر
جواب دیںحذف کریں👍
صحیح فرمایا
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںMashallah
جواب دیںحذف کریںMashaallah Mufti sahab Dil khush ho gaya.
جواب دیںحذف کریںاب کی بار مودی کی ہار۔ ان شاء اللہ
جواب دیںحذف کریں