سوال :
مفتی صاحب! ایک مسئلہ در پیش ہے۔
ایک مرد اپنی بیوی کو ایک مجلس میں دو بار کہا کہ میں اپنے رشتے سے تجھ کو آزاد کردیا۔ کون سی طلاق ہوئی؟ اور اب اس عورت کے لئے کیا حکم ہوگا؟ فی الحال وہ عورت اپنے شوہر ہی کے گھر میں ہے۔
(المستفتی : مولوی عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں مرد کا اپنی بیوی کو دو مرتبہ یہ کہنا کہ "میں نے اپنے رشتے سے تجھ کو آزاد کردیا" یہ جملہ صریح ہے اور اور صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے۔ دو طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ ہوئی ہوتو شوہر کو عدت کی مدت میں رجوع کا اختیار ہے، یعنی دو گواہوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو رجوع ہوجائے گا۔ اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہوئی ہوتو شوہر کے پاس اب صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔
فَإِنَّ سَرَّحْتُك كِنَايَةٌ لَكِنَّهُ فِي عُرْفِ الْفُرْسِ غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ فِي الصَّرِيحِ فَإِذَا قَالَ " رهاكردم " أَيْ سَرَّحْتُك يَقَعُ بِهِ الرَّجْعِيُّ مَعَ أَنَّ أَصْلَهُ كِنَايَةٌ أَيْضًا، وَمَا ذَاكَ إلَّا لِأَنَّهُ غَلَبَ فِي عُرْفِ الْفُرْسِ اسْتِعْمَالُهُ فِي الطَّلَاقِ وَقَدْ مَرَّ أَنَّ الصَّرِيحَ مَا لَمْ يُسْتَعْمَلْ إلَّا فِي الطَّلَاقِ مِنْ أَيِّ لُغَةٍ كَانَتْ۔ (شامی : ٣/٢٩٩)
وَلَوْ قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ: ترا جِنّك بَازٍ داشتم أَوْ بهشتم أَوْ يَلِهِ كردم ترا أَوْ باي كَشَادِّهِ كردم ترا فَهَذَا كُلُّهُ تَفْسِيرُ قَوْلِهِ طَلَّقْتُك عُرْفًا حَتَّى يَكُونَ رَجْعِيًّا وَيَقَعُ بِدُونِ النِّيَّةِ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی القعدہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں