سوال :
محترم مفتی صاحب ! حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حاجیوں کے استقبال میں لوگ مختلف طرح کے اعمال انجام دیتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ استقبال میں کون سے اعمال انجام دئیے جاسکتے ہیں؟ ان کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج بلاشبہ ایک عظیم الشان مالی اور بدنی عبادت ہے، لہٰذا حجاج کرام کے سفر حج سے واپس آنے پر ان سے ملاقات، سلام ومصافحہ اور دعا کی درخواست کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حاجیوں کا استقبال تو اچھی بات ہے، ان سے ملاقات اور مصافحہ اور معانقہ بھی جائز ہے، اور ان سے دُعا کرانے کا بھی حکم ہے، لیکن یہ پھول اور نعرے وغیرہ حدود سے تجاوز ہے، اگر حاجی صاحب کے دِل میں عجب پیدا ہوجائے تو حج ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے ان چیزوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٤/٢٤٣)
فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں :
پھولوں کا ہار ڈالنا سلف صالحین سے کہیں ثابت نہیں مشرکین اپنے بتوں پر پھول چڑھاتے ہیں اور مبتدعین ان کی حرص میں قبور اور مزارات پر چڑھاتے ہیں، اب ایک قدم اور آگے بڑھاکر زندہ لیڈروں اور عازمین حج یا حجاج پر چڑھانے لگے اس سے زیادہ اور کوئی اس کی اصل معلوم نہیں ہوتی۳، اگر سونگھنے کیلئے کسی کو پھول یاکوئی اورخوشبو دیجائے تو وہ بہتر ہے، جس کا رد کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ١٥/٣٩١)
لہٰذا حجاج کرام کے استقبال میں ان سے ملاقات کرنا، مصافحہ، معانقہ کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا اور مزید کچھ کرنا ہے تو انہیں پھول پیش کردینا یا ان کا منہ میٹھا کردینا کافی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ۔ (مسند أحمد، رقم : ۵۳۷۱-۶۱۱۲)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)
قال القاري : أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في الشہرۃ، ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ رَيْحَانٌ فَلَا يَرُدُّهُ فَإِنَّهُ خَفِيفُ الْمَحْمِلِ طَيِّبُ الرِّيحِ۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٢٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں