سوال :
محترم مفتی صاحب ! ٹیچر حلقے انتخاب کیلئے 26 جون کو ووٹنگ ہونے والی ہے، جس میں صرف ٹیچر ہی ووٹ کر سکتا ہے۔
اسی الیکشن کے پیش نظر امیدوار اسکولوں میں تحائف (کپڑے، سونے کی نتھنیاں وغیرہ) بھیجتے ہیں۔
ایک ٹیچر نے سوال کیا ہے کہ اگر ہم اسی امیدوار کو ووٹ دیں تو کیا ان تحائف کا استعمال کرنا جائز ہوگا؟ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تحائف کو قبول نا کیا جائے تو تعصب کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں تحائف کا کیا کیا جائے؟
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں الیکشن کے ایام میں ٹیچر الیکشن میں امیدوار کی طرف سے ووٹروں کو دیئے جانے والے تحائف رشوت ہیں۔ اس لئے کہ الیکشن کے ایام میں ہی امیدوار کو اس کا خیال کیوں آیا؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ اسے کبھی ٹیچروں کو تحائف دینے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ تحائف دینے والا امیدوار اگر ہار جائے تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ تحفہ لینے والوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟ نیز اگر امیدوار کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ تحفہ لینے والے نے مجھے ووٹ نہیں دی ہے تو کیا وہ اسے دھوکے باز نہیں سمجھے گا؟ اسی طرح اگر اس کا بس چل جائے تو وہ دھوکہ دینے والوں سے اپنا تحفہ وصول کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟
مذکورہ بالا وجوہات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ تحائف رشوت ہی ہیں کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)
ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس ملعون عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کرے۔ تاہم اگر کسی نے لاعلمی یا کسی اور وجہ سے تحفہ قبول کرلیا ہے تو اسے پہلی فرصت میں واپس کردے اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو اسے بلانیت ثواب کسی مستحق زکوٰۃ کو دے دے، اور ووٹ اہلیت اور قابلیت رکھنے والے امیدوار کو ہی دے۔
1) قال العلامۃ ابن عابدین : الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)
2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)
3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)
4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1445
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریں