سوال :
محترم مفتی صاحب ! حج کی فضیلت کیا ہے؟ اور اس کا طریقہ آسان انداز میں بیان فرما دیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے جس پر اسلام کی بنیاد ہے، اور یہ ایک ایسی عظيم الشان عبادت ہے جس میں بندے کا جان اور مال دونوں لگتا ہے۔ حج کے متعدد فضائل حدیث شریف میں بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حجِ مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پے درپے حج وعمرے کیا کرو، بے شک یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا یارسول اللہ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ (یعنی عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں کو حج وعمرہ کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے)۔ (مسند احمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس شخص نے حج کیا، اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت ابو زہیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے۔ (مسند احمد، شعب الایمان)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اسے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو، کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ (مسنداحمد)
حج کی تین قسمیں ہیں : حجِ افراد، حجِ تمتع اور حجِ قران۔
حجِ افراد : اگر حاجی میقات سے صرف حج کا احرام باندھے، تو ایسے حج کو ’’حجِ افراد‘‘ کہتے ہیں۔
حجِ تمتع : اگرحاجی حج کے مہینوں (شوال، ذی القعده، ذی الحجہ) میں عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کرکے حلال ہوجائے، پھر آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھ کر حج کرے، تو ایسے حج کو ’’حجِ تمتع‘‘ کہتے ہیں۔
حجِ قران : اگر حاجی میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے اور عمرہ کرنے کے بعد احرام نہ کھولے، احرام ہی کی حالت میں رہے، پھر اسی احرام کے ساتھ حج کرے، تو ایسے حج کو ’’حجِ قران‘‘ کہتے ہیں۔
ذکرکردہ حج کی تین اقسام میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک افضل حجِ قران ہے، لیکن آج کل چوں کہ سفر حج کا نظام الاوقات حاجی کے قابو میں نہیں رہتا، اور بعض اوقات وقت سے بہت پہلے حاجی کو مکہ پہنچنا ہوتا ہے، اتنے طویل عرصہ تک احرام کی حالت میں رہنا اور احرام کی ممنوعات سے بچنا مشکل ہوتا ہے، اور مستحب عمل کے لیے حرام کا ارتکاب کرنا یا اس کے ارتکاب کا خطرہ مول لینا مناسب نہیں ہے، اسی لیے بعد کے علماء کرام نے دور دراز سے مکہ مکرمہ جانے والوں کے لیے "حج تمتع" کو افضل قرار دیا ہے۔
حج کے فرائض
حج کے فرائض تين ہیں، ان میں سے پہلا : احرام ہے یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل تلبیہ پڑھنا، اس کے بغیر حج کی ادائیگی نہیں ہوتی، یہ ابتداءً شرط ہے اور انتهاءً اس كا حكم ركن كا ہی ہوجاتا ہے، اور احرام میں داخل ہوجانے کے بعد حج کے ارکان دو ہیں :
پہلا وقوف عرفہ : نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، چاہے کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے۔ (یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم ہی کیوں نہ دے دے۔ البتہ اس کا وجوبی وقت نویں ذوالحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر غروب سے پہلے پہلے ہے، لہٰذا بغیر عذر کے اس وقت کو چھوڑ کر مغرب کے بعد سے دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق کے درمیان وقوف نہ کیا جائے، اگر بلا عذر ایسا کیا تو مکروہ ہوگا۔)
دوسرا طوافِ زیارت : جو کہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، (جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے۔)
رکن سے مراد حج کے فرائض ہوتے ہیں۔
حج کے واجبات
واجباتِ حج اصلاً چھ ہیں :
(۱) وقوفِ مزدلفہ (جس کا وقت ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے طلوعِ آفتاب کے درمیان ہے)
(۲) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔
(۳) رمی جمار کرنا۔
(۴) قارن ومتمتع کو دمِ شکر دینا۔
(۵) حلق یا قصر کرانا۔
(۶) آفاقی کو طواف وداع کرنا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ حج کے اصل واجبات کے ساتھ بہت سے واجبات ملحق ہیں، جیسے : ممنوعاتِ احرام مثلاً وقوفِ عرفہ کے بعد جماع کرنے، سلا ہوا کپڑا پہننے، سر اور چہرہ کو ڈھانکنے سے بچنا وغیرہ۔ ان تمام ملحقات کو ملاکر واجبات کی تعداد ۳۵؍تک پہنچ جاتی ہے۔
مذکورہ واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بلا عذر چھوٹ جائے تو دم واجب ہوگا، اور حج درست ہوجائے گا، چاہے قصداً چھوڑا ہو یا بھول کر۔ البتہ اگر کسی معقول عذر سے واجب چھوٹا ہوتو حکم میں تخفیف ہوگی۔
حج کا مکمل طریقہ :
حاجی آٹھ ذی الحجہ کو فجر کی نماز مکہ مکرمہ میں پڑھ کر منیٰ کی طرف روانہ ہو، منی میں پہنچ کر پانچ نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرے۔ فی الحال بھیڑ کی وجہ سے آٹھ ذی الحجہ کی رات کو ہی منی لے کر چلے جاتے ہیں، جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حج کا دوسرا دن یعنی وقوف عرفہ جو حج کا سب سے بڑا رُکن ہے۔ نو ذی الحجہ کو فجر کی نماز منیٰ میں پڑھ کر منیٰ سے عرفات کے لیے روانہ ہوجائے، عرفات پہنچ کر ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرے اور غروب آفتاب تک عرفات میں رہے، زوال کے بعد سے غروب تک عرفات میں ٹھہرنا واجب ہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیرِ حج کی اقتدا میں پڑھی جائے، یعنی عصر کو بھی ظہر ہی کے وقت میں پڑھ لے۔ وہاں جو بڑی مسجد ہے جس کو مسجد نمرہ کہتے ہیں اس میں امام دونوں نمازیں اکٹھی پڑھاتا ہے لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا اور سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اور بغیر امیرِ حج کی اقتدا کے دونوں نمازوں کو جمع کرنا درست بھی نہیں ہے، اس لیے حنفی حضرات اپنے اپنے خیموں میں ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نمازعصر کے وقت باجماعت پڑھیں اور نمازوں کے علاوہ جو وقت ہے اسے ذکر و دعا اور تلبیہ میں لگائیں، غروب آفتاب کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوجائے۔
مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں ادا کرے، اس روز حجاج کے لیے مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھنا جائز نہیں، واجب ہے کہ نمازِ مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے وقت نمازِ عشاء کے ساتھ پڑھے۔ مزدلفہ پہنچ کر اوّل مغرب کے فرض پڑھے اور مغرب کے فرضوں کے فوراً بعد عشاء کے فرض پڑھے، مغرب کی سنتیں اور عشاء کی سنتیں اور وتر سب بعد میں پڑھے۔ مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائیں اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے لیے جماعت شرط نہیں ہے، تنہا ہو تب بھی اکٹھا کرکے پڑھے۔ اگر مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھ لی ہے تو مزدلفہ میں پہنچ کر اس کا اعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر عشاء کے وقت سے پہلے مزدلفہ پہنچ گیا تو ابھی مغرب کی نماز نہ پڑھے، عشاء کے وقت کا انتظار کرے اور عشاء کے وقت میں دونوں نمازوں کو اکٹھا کرے۔ رات مزدلفہ میں گزارے، مزدلفہ کی رات عیدالاضحی کی شب ہے، اس رات میں حتی الامکان عبادت کرنا بہت فضیلت کی بات ہے۔ تھکاوٹ دور کرکے کچھ نہ کچھ عبادت، نماز، تلاوت، تلبیہ، اذکار اور دعا میں مشغول ہونا چاہئے۔ اور اسی رات میں ستر کنکریاں جمع کرلیں۔ اور پھر دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب کے بعد منیٰ کے لیے روانہ ہوجائے۔
منیٰ پہنچ کر رمی یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں مارے، دسویں تاریخ کو صرف جمرۂ عقبہ کی رَمی ہوتی ہے، مزدلفہ سے چل کر جب منیٰ پہنچے تو پہلے اور دوسرے جمرہ کو چھوڑ کر سیدھا جمرۂ عقبہ پر جائے اور اس کو سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ پڑھنا ختم کردے۔ مفرد ہو یا متمتع یا قارِن سب کے لیے ایک ہی حکم ہے۔ حجِ تمتع یا قران کرنے والا دمِ شکر یعنی حج کی قربانی کرے جس کا حدود حرم میں کرنا ضروری ہے، حج افراد کرنے والے پر حج کی قربانی واجب نہیں ، البتہ کرلے تو اچھی بات ہے۔ اس کے بعد حلق (سرمنڈا) کر احرام سے نکل جائے۔
یاد رہے کہ یہ تینوں کام (شیطان کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا اور حلق کرنا) اسی ترتیب سے واجب ہیں۔ حلق کرانے کے بعد وہ تمام ممنوعاتِ احرام حلال ہوجائیں گے، یعنی خوشبو لگانا، ناخن کاٹنا، کسی بھی جگہ کے بال کاٹنا، سلے ہوئے کپڑے پہننا، سر اور چہرہ ڈھانکنا یہ سب کام جائز ہوجاتے ہیں، البتہ میاں بیوی والے خاص تعلقات حلال نہیں ہوتے، وہ طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد طوافِ زیارت کرے، جو دسویں کو کرنا افضل ہے، بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے تک کرسکتا ہے، اگر طوافِ قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی، (متمتع پر طوافِ قدوم نہیں ہے) تو طواف زیارت کے ساتھ رمل بھی کرے اور اگر احرام اتار لیا ہے، تو اضطباع بھی نہ کرے، ورنہ اضطباع کرے۔ تمتع کرنے والا طوافِ زیارت کے بعد سعی کرے گا، لیکن اگر وہ پہلے سعی کرنا چاہے تو احرام باندھنے کے بعد ایک نفلی طواف کرکے حج کی سعی کرسکتا ہے، اس نفلی طواف میں رمل واضطباع کرے گا، پھر بعد میں طوافِ زیارت میں رمل واضطباع نہیں کیا جائے گا۔ اب طوافِ زیارت کے بعد بیوی بھی حلال ہوجائے گی۔
دسویں تاریخ کو طوافِ زیارت کے بعد منیٰ واپس آجائے اور گیارہویں بارہویں شب منیٰ میں گزارے اور ان دونوں دنوں میں زوال کے بعد تینوں جمرات کی رَمی کرے، (دس تاریخ کو طوافِ زیارت نہ کیا ہو تو گیارہویں، بارہویں تاریخ میں سے کسی وقت، رات کو یادن کو مکہ معظمہ جاکر طواف کرلے۔) پھر مکہ مکرمہ آسکتا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ تیرہویں کو زوال کے بعد رمی کرکے آئے۔
طوافِ صدر جسے طوافِ وداع بھی کہتے ہیں، حج کے تمام ارکان ومناسک کی ادائیگی کے بعد اس طواف کا کرنا واجب ہے، طوافِ وداع کا وقت طوافِ زیارت کے ۴؍چکر کرلینے کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے، اورپھر جب تک حاجی مکہ معظمہ میں مقیم رہے، اس کا وقت باقی رہتا ہے، وہ کبھی بھی طوافِ وداع ادا کرسکتا ہے۔ اور بہتر ہے کہ واپسی کے وقت اسے ادا کیا جائے، نیز اہل مکہ اور اہل حل پر طوافِ وداع نہیں ہے۔
طوافِ وداع کرلینے کے بعد اب الحمدللہ حج مکمل ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ حج مقبول ومبرور عطا فرمائے۔ جب تک چاہے مکہ میں قیام کرے اور خوب طواف اور عمرہ کرے، مگر عمرہ تیرہ ذی الحجہ کے بعد کرے، کیونکہ نو سے تیرہ ذی الحجہ تک عمرہ کرنا منع ہے۔
عمرہ کے فضائل اور طریقہ جاننے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔
مَطْلَبٌ فِي فُرُوضِ الْحَجِّ وَوَاجِبَاتِهِ (قَوْلُهُ فَرْضُهُ) عَبَّرَ بِهِ لِيَشْمَل الشَّرْطَ وَالرُّكْنَ ط (قَوْلُهُ الْإِحْرَامُ) هُوَ النِّيَّةُ وَالتَّلْبِيَةُ أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهَا أَيْ مَقَامَ التَّلْبِيَةِ مِنْ الذِّكْرِ أَوْ تَقْلِيدِ الْبَدَنَةِ مَعَ السَّوْقِ لُبَابٌ وَشَرْحُهُ (قَوْلُهُ وَهُوَ شَرْطُ ابْتِدَاءٍ) حَتَّى صَحَّ تَقْدِيمُهُ عَلَى أَشْهُرِ الْحَجِّ وَإِنْ كُرِهَ كَمَا سَيَأْتِي ح (قَوْلُهُ حَتَّى لَمْ يَجُزْ إلَخْ) تَفْرِيعٌ عَلَى شَبَهِهِ بِالرُّكْنِ يَعْنِي أَنَّ فَائِتَ الْحَجِّ لَا يَجُوزُ لَهُ اسْتِدَامَةُ الْإِحْرَامِ، بَلْ عَلَيْهِ التَّحَلُّلُ بِعُمْرَةٍ وَالْقَضَاءُ مِنْ قَابِلٍ كَمَا يَأْتِي، وَلَوْ كَانَ شَرْطًا مَحْضًا لَجَازَتْ الِاسْتِدَامَةُ اهـ ح وَيَتَفَرَّعُ عَلَيْهِ أَيْضًا مَا فِي شَرْحِ اللُّبَابِ مِنْ أَنَّهُ لَوْ أَحْرَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ تَعَالَى بَطَلَ إحْرَامُهُ وَإِلَّا فَالرِّدَّةُ لَا تُبْطِلُ الشَّرْطَ الْحَقِيقِيَّ كَالطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ اهـ وَكَذَا مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ اشْتِرَاطِ النِّيَّةِ فِيهِ، وَالشَّرْطُ الْمَحْضُ لَا يَحْتَاجُ إلَى نِيَّةٍ وَكَذَا مَا مَرَّ مِنْ عَدَمِ سُقُوطِ الْفَرْضِ عَنْ صَبِيٍّ أَوْ عَبْدٍ أَحْرَمَ فَبَلَغَ أَوْ عَتَقَ مَا لَمْ يُجَدِّدْهُ الصَّبِيُّ۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار : (٢/٤٦٧)
وأما ركن الحج فشيئان : أحدهما : الوقوف بعرفة وهو الركن الأصلي للحج ، والثاني:طواف الزيارة۔ (بدائع الصنائع : ٤/٣٧٠)
واما واجباتہ فستۃ : وقوف جمع فی وقتہ ولو لحظۃ، والسعی بین الصفا والمروۃ، ورمی الجمار، والذبح للقارن والمتمتع، والحلق او التقصیر فی اوانہ ومکانہ، وطواف الصدر للاٰفاقی غیر الحائض والنفساء إذا لم یستوطن بمکۃ قبل النفر الأول۔ (غنیۃ الناسک : ۴۵)
وألحق بالواجبات ترک محظورات الاحرام کالجماع بعد الوقوف بعرفۃ،ولبس المخیط۔ (غنیۃ الناسک : ۴۶)
فصار المجموع ای مجموع الواجبات بلحوق ترک المحظورات خمسۃ وثلاثین واجباً۔ (مناسک ملا علی قاری : ۷۲)
وکل ما ہو واجب فحکمہ وجوب الدم بترکہ بلا عذر وجواز الحج سواء ترکہ عمداً او سہواً او خطاً او جاہلاً او عالماً لکن العامد اٰثم۔ (غنیۃ الناسک : ۴۶)
ویرمل فی طواف الزیارۃ ویسعی بعدہ، وان اراد تقدیم السعی لزمہ ان یتنفل بطواف بعد احرامہ للحج ویضطبع فیہ ویرمل ثم یسعی بعدہ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۱۶)
وواجبہ طواف الصدر وہو طواف الوداع للاٰفاقی من الحاج دون المعتمر …، الا انہ خفف عن المرأۃ الحائض۔ (شرح نقایۃ ۱؍۱۸۵، درمختار زکریا ۳؍۴۶۹-۴۷۰، مناسک ملا علی قاری ۱۴۲)
اما وقت جوازہ علی التعیین فاولہ بعد اتیان اکثر طواف الزیارۃ ولو فی یوم النحر ولا آخر لہ ما دام مقیماً فلو اتی بہ ولو بعد سنۃ یکون اداء اً لا قضاء اً۔ (غنیۃ الناسک : ۱۹۰)
وإذا أراد الإحرام اغتسل أو توضأ - والغسل أفضل - ولبس ثوبين جديدين أو غسيلين إزارا ورداء ومس طيبا إن كان له طيب وصلى ركعتين وقال: اللهم إني أريد الحج فيسره لي وتقبله مني، ثم يلبي عقيب صلاته فإن كان مفردا بالحج نوى بتلبيته الحج والتلبية أن يقول: لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك ولا ينبغي أن يخل بشي من هذه الكلمات فإن زاد فيها جاز۔۔۔ثم يقيم بمكة حراما يطوف بالبيت كلما بدا له فإذا كان قبل يوم التروية بيوم خطب الإمام خطبة يعلم الناس فيها الخروج إلى منى والصلاة بعرفات والوقوف والإفاضة فإذا صلى الفجر يوم التروية بمكة خرج إلى منى فأقام بها حتى يصلي الفجر يوم عرفة
ثم يتوجه إلى عرفات فيقيم بها فإذا زالت الشمس من يوم عرفة صلى الإمام بالناس الظهر والعصر ثم يبتدئ فيخطب خطبتين قبل الصلاة يعلم الناس فيها الصلاة والوقوف بعرفة والمزدلفة ورمي الجمار والنحر والحلق وطواف الزيارة ويصلي بهم الظهر والعصر في وقت الظهر بأذان وإقامتين۔۔۔فإذا غربت الشمس أفاض الإمام والناس معه على هينتهم حتى يأتوا المزدلفة فينزلوا بها والمستحب أن ينزل بقرب الجبل الذي عليه الميقدة يقال له قزح ويصلي الإمام بالناس المغرب والعشاء بأذان وإقامة۔۔۔فإذا طلع الفجر صلى الإمام بالناس الفجر بغلس ثم وقف ووقف الناس معه فدعا: والمزدلفة كلها موقف إلا بطن محسر
ثم أفاض الإمام والناس معه قبل طلوع الشمس حتى يأتوا منى فيبتدئ بجمرة العقبة فيرميها من بطن الوادي بسبع حصيات مثل الخذف
ويكبر مع كل حصاة ولا يقف عندها ويقطع التلبية مع أول حصاة
ثم يذبح إن أحب ثم يحلق أو يقصر والحلق أفضل وقد حل له كل شيء إلا النساء
ثم يأتي مكة من يومه ذلك أو من الغد أو من بعد الغد فيطوف بالبيت طواف الزيارة ستعة أشواط ۔۔۔ وقد حل له النساء ۔۔۔ثم يعود إلى منى فيقيم بها فإذا زالت الشمس من اليوم الثاني من النحر رمى الجمار الثلاث يبتدئ بالتي تلي المسجد فيرميها بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ويقف ويدعو عندها ثم يرمي التي تليها مثل ذلك ويقف عندها ثم يرمي جمرة العقبة كذلك ولا يقف عندها فإذا كان من الغد رمى الجمار الثلاث بعد زوال الشمس كذلك فإذا أراد أن يتعجل النفر نفر إلى مكة وإن أراد أن يقيم رمى الجمار الثلاث في يوم الرابع بعد زوال الشمس فإن قدم الرمي في هذا اليوم قبل الزوال بعد طلوع الفجر جاز عند۔۔۔ فإذا نفر إلى مكة نزل بالمحصب ثم طاف بالبيت سبعة أشواط لا يرمل فيها وهذا طواف الصدر هو واجب إلا على أهل مكة ثم يعود إلى أهله۔ (مختصر القدوری : ٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1445
ماشا اللہ اگر اڈوانس میں سعی نہی کی ہے تو طواف زیارت میں رمل کرنا ہے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت عمدہ ہے
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
الحمدللہ ، بہتر اور آسان انداز میں مرتّب کیا ہوا ... جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریں