اتوار، 5 مئی، 2024

کیا اللہ کے ذکر سے غافل مچھلی جال میں پھنستی ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو، کیا یہ حدیث ہے یا کسی بزرگ کا مقولہ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، بھیونڈی)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : واقعات اور پند ونصائح پر مشتمل علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب "صفۃ الصفوۃ" میں ایک واقعہ مذکور ہے جو درج ذیل ہے۔

ابو العباس بن مسروق بیان فرماتے ہیں کہ میں جب یمن میں تھا، تو  ایک ساحل پر کسی شکاری کو مچھلی  شکار کرتے دیکھا، اس کے پہلو میں اس کی بیٹی بھی موجود تھی، وہ جب بھی مچھلی شکار کرکے اسے ٹوکرے میں ڈالتا، اس کی بیٹی اسے واپس پانی میں ڈال دیتی، آخر میں شکاری نے ٹوکرے کو دیکھا تو اس میں کچھ نہیں تھا، اپنی بیٹی سے کہا : تونے مچھلیوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا: اے ابا جان ! کیا میں نے آپ سے نہیں سنا  کہ آپ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، مجھے اچھا نہیں لگا کہ ہم ایسی چیز کھائیں جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، تو آدمی رونے لگا، اور جال پھینک دیا۔ 

لیکن اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے جو بات کہی گئی ہے کہ "جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو" اس کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت مذکور ہے۔ لہٰذا اسے حدیث کہہ کر تو بالکل بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کا قول کہہ کر بیان کرسکتے ہیں، اس لیے کہ یہ ایک غیبی اور چھپی ہوئی بات ہے جس کا علم ہمیں قرآن وحدیث کے بغیر نہیں ہوسکتا۔


أبو العباس بن مسروق قال : كنت باليمن فرأيت صياداً يصطاد السمك على بعض السواحل، وإلى جنبه ابنة له. فكلما اصطاد سمكة فتركها في دوخلة معه ردت الصبية السمكة إلى الماء، فالتفت الرجل فلم ير شيئاً، فقال لابنته: أي شيء عملت بالسمك؟ فقالت: يا أبي أليس سمعتك تروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا تقع سمكة في شبكة إلا إذا غفلت عن ذكر الله عز وجل" فلم أحب أن نأكل شيئاً غفل عن ذكر الله تعالى. فبكى الرجل ورمى الصنارة۔ (صفة الصفوة لابن الجوزي : ٢/٥٣٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1445

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں