سوال :
مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایکسپائری پروڈکٹ بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی صحت خراب ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو کیا گناہ ملے گا؟ اور ایسا دھندہ کرنے والوں کے لیےشریعت میں کیا حکم ہے؟
(المستفتی : طفیل الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کھانے پینے والی اشیاء یا دوائیں جب ان کی مدت ختم (expiry date) ہوجائے تو پھر ان کے استعمال سے سخت نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی خرید وفروخت قانوناً جُرم ہوتی ہے۔ تاہم ایکسپائری اشیاء شرعاً مال غیرمتقوم یعنی ایسا مال نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت ہی نہ ہو، لہٰذا اسے بتاکر اور باہمی رضامندی سے قیمت طے کرکے فروخت کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر اس کا عیب چھپاکر یعنی اس کی ایکسپائری ڈیٹ نہ بتاکر اسے عام اشیاء کی طرح فروخت کرنا دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ " مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ " قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ، كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي "۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠٢)
لَا يَحِلُّ كِتْمَانُ الْعَيْبِ فِي مَبِيعٍ أَوْ ثَمَنٍ؛ لِأَنَّ الْغِشَّ حَرَامٌ إلَّا فِي مَسْأَلَتَيْنِ۔ (شامی : ٥/٤٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں