سوال :
مفتی صاحب ! مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ شوہر نے ایک ماہ تک بیوی سے مباشرت نہ کرنے کی اللہ کی قسم کھائی تھی اور ایک ماہ سے پہلے ہی مباشرت کرلیا تو کیا حکم ہے؟ پس منظر یہ تھا کہ بیوی بار بار مباشرت کرنے سے ناراض ہوگئی تھی۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : اکرم علی، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں شوہر نے ایک غلط بات کی قسم کھائی تھی، کیونکہ اس میں بیوی کو تکلیف دینا اور ایک واجب عمل یعنی بیوی کا حق ادا نہ کرنے کی قسم کھانا پایا جاتا ہے۔ تاہم اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے تو اسے یہ قسم توڑ دینا چاہیے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا شوہر پر قسم توڑنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوا ہے۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔
قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دے دیا جائے۔
قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)
وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)
ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)
وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)
أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)
ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی القعدہ 1445
جزاک اللہ خیرا 🌹
جواب دیںحذف کریں