سوال :
مفتی صاحب ! مسئلہ یہ ہے کہ بچہ کی ختنہ کتنی سال کی عمر تک کرنا چاہیے؟ ایک صاحب بتارہے تھے کے تیسرے سال میں بچہ کی ختنہ نہیں کرنا چاہیے۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : حافظ سفیان، اورنگ آباد)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ختنہ کے لیے کوئی مخصوص دن، مہینہ یا سال شرعاً متعین نہیں ہے۔ نومولود لڑکے کی صحت جب بھی اس قابل ہوکہ وہ ختنہ کی تکلیف برداشت کرسکتا ہو تو اس کی ختنہ کرلینا چاہیے۔ اگر پہلے نہیں کی گئی ہے تو تیسرے سال بھی کرسکتے ہیں، تیسرے سال ختنہ کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
ابْتِدَاءُ الْوَقْتِ الْمُسْتَحَبُّ لِلْخِتَانِ مِنْ سَبْعِ سِنِينَ إلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً هُوَ الْمُخْتَارُ كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ بَعْدَ سَبْعَةِ أَيَّامٍ مِنْ وَقْتِ الْوِلَادَةِ كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْفَتَاوَى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٧)
(وَوَقْتُ الْخِتَانِ غَيْرُ مَعْلُومٍ) عِنْدَ الْإِمَامِ فَإِنَّهُ قَالَ لَا عِلْمَ لِي بِوَقْتِهِ، وَلَمْ يَرْوِ عَنْهُمَا فِيهِ شَيْءٌ (وَقِيلَ سَبْعُ سِنِينَ) وَقِيلَ لَا يُخْتَنُ حَتَّى يَبْلُغَ وَقِيلَ أَقْصَاهُ اثْنَيْ عَشَرَ سَنَةً، وَقِيلَ تِسْعُ سِنِينَ وَقِيلَ وَقْتُهُ عَشْرُ سِنِينَ؛ لِأَنَّهُ يُؤْمَرُ بِالصَّلَاةِ إذَا بَلَغَ عَشْرًا اعْتِبَارًا أَوْ تَخَلُّقًا فَيَحْتَاجُ إلَى الْخِتَانِ؛ لِأَنَّهُ شُرِعَ لِلطَّهَارَةِ وَقِيلَ إنْ كَانَ قَوِيًّا يُطِيقُ أَلَمَ الْخِتَانِ خُتِنَ وَإِلَّا فَلَا وَهُوَ أَشْبَهُ بِالْفِقْهِ۔ (مجمع الانہر : ٢/٧٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی القعدہ 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں