✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور )
قارئین کرام ! لوک سبھا انتخابات کا سلسلہ جاری ہیں، کئی مراحل کی ووٹنگ ہوچکی ہے۔ اور کئی مرحلوں کی ووٹنگ باقی ہے۔ ایسے میں مختلف طرح کے سوالات اور مطالبات آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہ مضمون لکھا جارہا ہے، اس مضمون کو ملاحظہ فرمائیں ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔
معزز قارئین ! علماء نے ووٹ کی مختلف حیثیتیں لکھی ہیں، جن میں ایک حیثیت شہادت کی ہے، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ ووٹ بذاتِ خود شہادت نہیں بلکہ یہ شہادت کی طرح ہے۔جس طرح شہادت میں گواہ کسی چیز کا دعوی کرنے والے شخص کے حق میں گواہی دیتا ہے اسی طرح ووٹ کے موجودہ نظام میں بھی انتخابات کے لئے کھڑا ہونے والا امیدوار شخص دو چیزوں کا دعوی کرتا ہے ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے گا اور اس کو ووٹ دینے والا شخص امیدوار کے متعلق ان دونوں دعوؤں پر گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دیانتدار و امانتدار بھی ہے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے، کہ ووٹر امیدوار کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔
ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے،کہ ووٹ دینے والااس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے، ایک شہادت، دوسری سفارش، تیسری حقوقِ مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح دیانت دار اور قابل امیدوار کو ووٹ دینا موجبِ ثواب ہوگا، اسی طرح جان بوجھ کر یا مال کے عوض نااہل شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی ووٹ دینے والے کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ نیز بغیر کسی عذر کے ووٹ ہی نہ دینا کسی نہ کسی درجہ میں شہادت اور گواہی کو چھپانا ہے جو شرعاً بھی درست نہیں ہے۔ اور موجودہ حالات میں جبکہ فرقہ پرست اور شرپسند عناصر اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل یہاں کی بھائی چارگی اور مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں، مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں، مذہبی کارڈ کھیل کر اور عوام کو گمراہ کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جاریا ہے، ہندوستان کی معیشت کو غیرمعمولی نقصان پہنچایا جارہا ہے تو ایسے حالات میں ووٹ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ہرحال میں ووٹ دینا اور دلوانا ہے اور سیکولر پارٹیوں کے جیتنے کی پوزیشن رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینا ہے، جیتنے کی پوزیشن نہ رکھنے والے امیدوار کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر اس کو ضائع کرنے کی حماقت بالکل نہ کریں۔
یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ ان شرپسندوں کے مقابلے میں بظاہر جو سیکولر اتحاد قائم کیا گیا ہے وہ بھی کوئی دودھ کا دھلا یا مسلمانوں کا بڑا خیرخواہ نہیں ہے، لیکن شریعت کے اصولوں اور حکمت ومصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب دو مصیبتیں ہم پر نازل ہورہی ہوں اور دونوں سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہ ہوتو ہم چھوٹی مصیبت کو اختیار کرلیں اور چھوٹی مصیبت کے ذریعے بڑی مصیبت کو زِیر کردیں۔
اسی طرح خواتین کو صبح کی اولین ساعتوں میں ووٹنگ کے لیے لے جایا جائے۔ کیونکہ خواتین گھریلو مصروفیات کی وجہ سے اس میں کوتاہی کردیتی ہیں، اگر کسی پولنگ بوتھ پر شناخت کے لیے افسران کے مطالبے پر چہرہ کھولنے کی نوبت آجائے تو بوقتِ ضرورت شرعاً اس کی بھی گنجائش ہوگی۔ اسے مسئلہ بناکر ووٹنگ میں تاخیر نہ کی جائے، کیونکہ تاخیر کی وجہ سے ووٹنگ کے فیصد پر اثر پڑتا ہے، اور ہمیں زیادہ سے زیادہ بلکہ صد فیصد ووٹنگ کی کوشش کرنا ہے جو ہمارے لیے ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو درست فرمادے، ظالموں کے تسلط سے ہماری حفاظت فرمائے اور وطن عزیز ہندوستان میں امن وامان اور ترقی کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
بہترین،اطمینان بخش اور بروقت تحریر..
جواب دیںحذف کریںBehtreen tahreer
جواب دیںحذف کریں👍👍
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ. بہت عمدہ وضاحت ہے
جواب دیںحذف کریںبہترین رہنمائی
جواب دیںحذف کریں