ہفتہ، 4 مئی، 2024

حضرت ادریس علیہ السلام کا آسمان پر اٹھا لیا جانا


سوال :

مفتی صاحب ! آج ایک صاحب جو کہ عالم ہیں، انہوں نے مجھے ایک واقعہ بیان کیا کہ 
ادریس علیہ السلام کی ملک الموت سے دوستی تھی حضرت ادریس علیہ السلام سے ملک الموت سے کہا کہ آپ روح کسطرح نکالتے ہو تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر ان کو کہا کہ آپ لیٹ جائیں پھر انہوں نے اُنکی روح نکالنا شروع کر دیا پھر تھوڑی دیر بعد حضرت ادریس علیہ السلام نے منع کر دیا کہ اب رک جاؤ پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جہنم دیکھنے کی خواہش کی پھر ملک الموت نے اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد انہیں لے گئے جہنم سے پہلے ہی حضرت ادریس علیہ السلام نے گرمی اور سختی کی وجہ سے کہا کہ بس میں نے دیکھ لیا جبکہ انہوں نے نہیں دیکھا تھا پھر اسی طرح جنت کی خواہش ظاہر کی پھر اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد وہ دونوں گئے پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جنت میں سے جانے سے منع کیا تو فرشتے نے اُن سے کہا کہ یہاں موت سے پہلے نہیں آ سکتے تو حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ روح تو نکالی تھی نا۔ بھلے تھوڑی ہی، لیکن نکالی تھی، پھر ان کو اجازت مل گئی اور وہ وہاں ہی ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے کہا کہ رفع ادریس ایسے کچھ الفاظ ہے ۱۰ سے ۲۰ پارے کے درمیان میں نے کہا کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سنا تھا یہ پہلے سنا تو وہ کہنے لگے کہ یہ علماء کرام کے لیول کی باتیں ہیں، عوام میں ان کو بیان نہیں کیا جاتا اور میں قرآن سے بتا رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس واقعہ کی تحقیق بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد یاسین، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا۔ اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا۔ 

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے سوال نامہ میں مذکور اور اس جیسے اور بھی واقعات بیان کیے ہیں۔ اس واقعہ کی تحقیق میں درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں :

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
حضرت ادریس علیہ السلام کے زندہ آسمان میں اٹھائے جانے کے متعلق جو روایات ہیں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے (معارف القرآن، ج: ۶/۴۰) مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زندہ جنت میں جانا قطعی نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام باحیات ہیں قرآن کریم اس پر شاہد ہے بل رفعہ اللہ إلیہ (النساء آیت: ۱۵۸) اور آپ قرب قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (رقم الفتوی : 145940)

مفتی رضاء الحق لکھتے ہیں :
حقیقت بھی یہی ہے کہ اس روایت کے اکثرو بیشتر رواۃ کا تذکرہ کتب رجال میں موجود ہی نہیں ہے ان کے علاوہ اور دوسرے حضرات مثلا امام سیوطی ؒ نے در منثور میں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اور دیگر مفسرین نے اپنی کتب تفاسیر میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس روایت کے مختلف طرق نقل کئے ہیں، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ اکثرکا مدار کعب احبار پر ہے اور ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کی رائے گزرچکی کہ یہ اسرائیلیات ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو روایات کعب احبار کے علاوہ ہیں ان کے رواۃ پر جرح ہے وہ غیر مقبول ہیں ، لہذا کسی بھی اعتبار سے اس واقعہ کی روایات قابل اطمینان نہیں اور اس کی صحت بہت بعید ہے۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا : ١/١٣١)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں :
اس سے مراد نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلیٰ مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔ (توضیح القرآن : ٦٦٠)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور حضرت ادریس علیہ السلام کا واقعہ معتبر نہیں ہے، لہٰذا اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اور مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا گیا تھا جو اُس وقت کسی اور کو نہیں دیا گیا تھا۔


عن ام سلمۃ ان رسول اللہاقال ان ادریس علیہ السلام کان صدیقا لملک الموت فسألہ أن یریہ الجنۃ والنار فصعد ادریس ،رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ ابراہیم بن عبد اللہ بن خالد المصیصی وہومتروک۔ (مجمع الزوائد ۸/۱۹۹)

حدثنا حسین بن علیّ عن زائدۃ عن مسیرۃ الاشجعی عن عکرمۃ عن ابن عباس قال : سالت کعباً عن رفع ادریس مکانا علیا فقال الخ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۵۴۹/۱۱۹۳۲)

ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد یہ تبصرہ فرمایا ہے۔

ھذا من اخبار کعب الاحبار الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ ۔واللہ اعلم (تفسیر ابن کثیر : ۳/ ۱۴۰)

وھذا من الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ وایضا قال فی مثل ھذہ الروایات وہو من الاسرائیلیات لا تصدق ولا تکذب بل الظاہر ان صحتہا بعیدۃ۔(البدایۃ والنہایۃ : ۱/۱۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1445

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں