سوال :
مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اگر کسی رکشہ والے کو سات سو روپے میں مہینہ بھر کے لیے ہائر کیا جائے کہ بچوں کو اسکول چھوڑ دیا کرے، لیکن پورے مہینہ سردی کی وجہ سے اسکول میں چھٹی تھی تو رکشہ والے کو پیسے دئے جائیں گے یا نہیں؟ مفصل مدلل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : احمد ضیاء الدین، بہرائچ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور معاملات کی مختلف صورتیں بنتی ہیں، جنہیں ترتیب وار ذکر کیا جارہا ہے۔
١) شروع میں ہی اگر رکشہ والوں سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ ایامِ تعطیل کا کرایہ نہیں دیا جائے گا تو انہیں سالانہ چھٹیوں کا کرایہ نہیں دیا جائے۔
٢) اگر شروع میں ہی رکشہ والوں سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ ایامِ تعطیل کا بھی کرایہ دیا جائے گا تو سالانہ چھٹیوں مثلاً سردی اور گرمی کے ایام تعطیل کی تنخواہ بھی ان کو دینا لازم ہوگا۔
٣) اگر اس طرح کی کوئی بات طے نہیں کی گئی تھی اور علاقہ میں عام طور پر اس طرح ایامِ تعطیل کا کرایہ لینے دینے کا رواج بھی نہ ہو تو پھر رکشہ والے ایام تعطیل کی تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں۔
٤) اگر وہاں عام طور پر اس طرح کی لمبی تعطیلات کا کرایہ لینے کا رواج ہوتو انہیں کرایہ مانگنے کا اختیار ہوگا، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں عُرف کو بھی احکام کے اثبات میں دخل حاصل ہے۔ لہٰذا آئندہ کیلئے سارے معاملات پہلے ہی طے کرلیے جائیں تاکہ بعد میں کسی قسم کا تنازعہ نہ ہو۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٣٥٢)
(وَ) اعْلَمْ أَنَّ (الْأَجْرَ لَا يَلْزَمُ بِالْعَقْدِ فَلَا يَجِبُ تَسْلِيمُهُ) بِهِ (بَلْ بِتَعْجِيلِهِ أَوْ شَرْطِهِ فِي الْإِجَارَةِ) الْمُنَجَّزَةِ، أَمَّا الْمُضَافَةُ فَلَا تُمْلَكُ فِيهَا الْأُجْرَةُ بِشَرْطِ التَّعْجِيلِ إجْمَاعًا..... (أَوْ الِاسْتِيفَاءِ)لِلْمَنْفَعَةِ (أَوْ تَمَكُّنِهِ مِنْهُ)۔ (شامی : ٦/١٠)
والعرف في الشرع له الاعتبار لذا عليه الحكم قد يدار، قال في المستصفي : العرف و العادة مااستقر في النفوس من جهة العقول و تلقته الطبائع السليمة بالقبول،
في الأشباه والنظائر : السادسة : العادة المحكمة ...... واعلم أن العادة رجع إليه في مسائل كثيرة حتي جعلوا ذلك أصلاالخ۔ (شرح عقود رسم المفتی : تعريف العرف وحجيته، : ٧٦، ٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1445
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریں