بدھ، 14 فروری، 2024

نماز کی قبولیت کی علامت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک بات جاننا چاہتا ہوں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہو یہ پہلی نماز کی قبولیت ہے کیا یہ قران و حدیث سے ثابت ہے یا بزرگان دین کی بات ہے یا ملفوظات میں سے ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دنیا میں نیک اعمال بشمول نماز کی قبولیت کا یقینی علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی شریعت نے ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے کہ ہم اس کی تحقیق میں پڑیں۔ البتہ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں چند شرط ذکر فرمائی ہیں جن کا خیال رکھنے سے اعمال کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔ وہ شرائط درجِ ذیل ہیں :

ایمان : عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط ایمان اور تصحیحِ عقیدہ ہے۔ ایمان کے بغیر غلط عقیدے کے ساتھ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں۔

تصحیحِ نیت اور اخلاص : یعنی جو بھی عمل کیا جائے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے ہو۔ اس میں ریا، تکبر وغیرہ نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔

عمل کا شریعت اور سنت کے موافق ہونا : جو بھی عمل کرے، اس کا سنت اور شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خلافِ سنت اور خلافِ شریعت عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔ (مستفاد : معارف القرآن)

ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہونا پہلی نماز کی قبولیت کی علامت ہے، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، لہٰذا اسے حدیث کہہ کر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ "ایک نیک عمل کے بعد دوبارہ اسی نیک عمل کی توفیق ہوجانا پہلے عمل کی قبولیت کی علامت ہے" یہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ (اصلاحی مجالس : ١٥/٣١٤، از : حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب)

لہٰذا اسے حضرت حاجی صاحب کا ملفوظ کہہ کر بیان کرنے میں حرج نہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نیک عمل کرتے ہوئے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ عمل قبول ہوگا یا نہیں؟ اور اس وجہ سے عمل چھوڑنا نہیں چاہیے۔ نیک عمل کے بعد دوبارہ اس کی توفیق ملنا یہ امید دلاتا ہے کہ پہلا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوگیا۔ لہٰذا انسان کو نیک اعمال جاری رکھنے چاہیے، اور جو کمی بیشی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو انسان کا کونسا عمل پسند آجائے؟ اور بیڑہ پار ہوجائے۔ اس قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اعمال کی قبولیت کی جو بنیادی شرائط ہیں ان کو نظر انداز کیا جائے، ان شرائط کا لحاظ رکھنا بہر حال ضروری ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اگر کسی نیک عمل کے بعد دوبارہ اس عمل کی توفیق نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پہلا عمل قبول ہی نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہو۔ انسان کو بس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اعمال کرکے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے، زیادہ باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت نے نماز کی قبولیت کے لیے کچھ معیار، شرائط اور آداب ذکر کیے ہیں، مثلا : وضو کرنا، نیت کا درست ہونا، نماز کے فرائض و واجبات اور سنتوں کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کی رعایت کرکے نماز ادا کر لی گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ١٤٣)

﴿وَمَا كَانَ اللَّه لِيُضِيعَ إيمَانكُمْ﴾ أَيْ صَلَاتكُمْ إلَى بَيْت الْمَقْدِس بَلْ يُثِيبكُمْ عَلَيْهِ لِأَنَّ سَبَب نُزُولهَا السُّؤَال عَمَّنْ مَاتَ قَبْل التحويل ﴿إن الله بالناس﴾ المؤمنين ﴿لرؤوف رَحِيم﴾ فِي عَدَم إضَاعَة أَعْمَالهمْ وَالرَّأْفَة شِدَّة الرَّحْمَة وَقَدَّمَ الْأَبْلَغ لِلْفَاصِلَةِ۔ (تفسیر جلالین : ١/٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1445

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں