سوال :
ایک آدمی شیئرز مارکیٹ میں زیادہ انویسٹ کرتا رہتا ہے، اور اچھا نفع ملتا ہے تو شیئرز کی خریدوفروخت کرتا رہتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اسکا انویسمنٹ بڑا ہوتا ہے اور رقم بھی بڑی ہوتی ہے اور شیئرز کے خریدوفروخت کے دوران جو رقم اسکے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے وہ بڑی مقدار میں آتی ہے اور بینک میں متعین ہوتا ہے اتنے روپیوں کا ہی ٹرانزیکشن ہونا چاہیے، اگر بڑھ جاتا ہے تو وہ آدمی حکومت کی نظروں میں آجاتا ہے، تو وہ شخص اس سے بچنے کے لئے دوسرے آدمی کا اکاؤنٹ استعمال کرتا ہے اور وہ آدمی شیئرز کی خریدوفروخت سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس سے وہ اس اکاؤنٹ والے شخص کو کچھ رقم اس نفع میں سےغیر متعین دے دیتا ہے، آیا اس شخص کا ایسا حیلہ کرنا درست ہے؟ اور نفع میں سے دوسرے شخص کو دینا کیسا ہے؟ اور اس شخص کا وہ پیسے لینا کیسا ہے؟ اور اکاؤنٹ والے شخص کی نفع کی نیت سے اکاؤنٹ کو دینا نہیں ہے بلکہ اس نے تو تبرع کے طور پر دیا ہے۔
(المستفتی : حامد، پالن پور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اپنے کسی کام کے لیے دوسرے شخص کا بینک اکاؤنٹ استعمال کرنا جائز ہے۔ اور یہ معاملہ باقاعدہ اجرت طے کرکے بھی کیا جاسکتا ہے اور بغیر اجرت طے کیے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یعنی بطور ہبہ اور گفٹ بھی جس کا اکاؤنٹ استعمال کیا جارہا ہے اسے کچھ رقم دی جاسکتی ہے۔ یا پھر پہلے ہی کوئی رقم بطور اجرت متعین کرکے دوسرے شخص کا اکاؤنٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
البتہ دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ اگر اجرت متعین نہ کی تو مال کے ہلاک ہونے کی صورت میں جس کا اکاؤنٹ استعمال کیا جارہا ہے وہ ضامن نہیں ہوگا، اور اگر اجرت مقرر کی گئی ہو تو مال کی ہلاکت کی صورت میں اُس پر ضمان آئے گا اور اسے یہ رقم بہرحال ادا کرنا پڑے گا۔
(الْوَدِيعَةِ)الْأَمَانَةُ وَهِيَ فِي اللُّغَةِ مُشْتَقَّةٌ مِنْ الْوَدْعِ وَهُوَ التَّرْكُ وَفِي الشَّرِيعَةِ مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ (قَوْلُهُ الْإِيدَاعُ هُوَ تَسْلِيطُ الْغَيْرِ عَلَى حِفْظِ مَالِهِ) يَعْنِي صَرِيحًا أَوْ دَلَالَةً۔ (البحر الرائق : ٧/٢٧٣)
(الْإِيدَاعُ هُوَ تَسْلِيطُ الْغَيْرِ عَلَى حِفْظِ مَالِهِ الْوَدِيعَةُ مَا يُتْرَكُ عِنْدَ الْأَمِينِ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَعَلَى الْعَبْدِ أَنْ يَسْأَلَ التَّوْفِيقَ عَلَى حِفْظِ وَدِيعَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَى حِفْظِ جَمِيعِ الْأَمَانَاتِ فَإِنَّهُ فَرْضٌ قَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَدِّ الْأَمَانَةَ إلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَك» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58] وَحِفْظُهَا يُوجِبُ سَعَادَةَ الدَّارَيْنِ وَالْخِيَانَةُ تُوجِبُ الشَّقَاءَ فِيهِمَا قَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «الْأَمَانَةُ تَجُرُّ الْغِنَى وَالْخِيَانَةُ تَجُرُّ الْفَقْرَ۔ (تبيين الحقائق : ٥/٧٦)
بِخِلَافِ الْمُودِعِ إذَا شَرَطَ لِلْمُودَعِ أَجْرًا عَلَى حِفْظِ الْوَدِيعَةِ أَنَّ لَهُ الْأَجْرَ؛ لِأَنَّ حِفْظَ الْوَدِيعَةِ لَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَيْهِ؛ فَجَازَ شَرْطُ الْأَجْرِ، وَأُجْرَةُ الْحَافِظِ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهَا مُؤْنَةُ الْحِفْظِ وَالْحِفْظُ عَلَيْهِ۔ (بدائع الصنائع : ٦/١٥١)
الْمُودِعُ إذَا شَرَطَ الْأُجْرَةَ لِلْمُودَعِ عَلَى حِفْظِ الْوَدِيعَةِ صَحَّ وَلَزِمَ عَلَيْهِ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ۔ (الفتاوى الہندیۃ : ٤/٣٤٢)
فَلَا تُضْمَنُ بِالْهَلَاكِ إلَّا إذَا كَانَتْ الْوَدِيعَةُ بِأَجْرٍ أَشْبَاهٌ مَعْزِيًّا لِلزَّيْلَعِيّ۔ (شامی : ٥/٦٦٤)
فَأفَاد أَن الْوَدِيعَة بِأَجْر مَضْمُونَة اتِّفَاقًا وَبلا أجر غير مَضْمُونَة اتِّفَاقًا. قره عين الأخيار لتكملةَ۔ (شامی : ٨/٤٧٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رجب المرجب 1445
السلام وعلیکم مفتی صاحب ۔مال کی ہلاکت سے یہاں کیا مراد ہے۔
جواب دیںحذف کریںوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںجو چیز امانت رکھی گئی ہے۔