اتوار، 21 جنوری، 2024

دولہن لانے جانے کی خرافات

                 خدارا اسے بند کردیجیئے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
      (امام خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں دیگر علاقوں کی بہ نسبت شادیوں میں بہت حد تک شریعت کی پاسداری کی جاتی ہے۔ یہاں کی شادیاں کم خرچ اور آسان ہوتی ہیں، لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ یہاں کی شادیوں میں بھی فضول خرچی، خرافات اور منکرات کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ انہیں میں ایک عمل دولہن لانے جانے کی رسم ہے۔

ہمارے یہاں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح شہر میں ہی ہوتا ہے۔ اور نکاح کے بعد لڑکی والوں کے یہاں کھانا ہوتا ہے اور اس کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے چند عورتیں دولہن لانے جاتی ہیں۔ چند سالوں پہلے دو بڑی عمر کی خواتین خاموشی سے رکشے پر جاکر دولہن لے کر آجاتی تھیں، لیکن کچھ سالوں سے ایسا ہورہا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں نوجوان لڑکیاں دولہن لانے کے لیے جاتی ہیں، اور دولہن لے کر سیدھے گھر آنے کے بجائے اسے ہائی وے کی ہوٹلوں پر لے جایا جاتا ہے، اور پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دلہن کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر یہ لوگ ہوٹل میں کھانے پینے اورتفریح میں مگن ہوجاتے ہیں، اور دولہن تنہا یا پھر کسی ایک خاتون کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوتی ہے۔ کیا یہ بات کوئی غیرت مند شوہر گوارا کرسکتا ہے کہ اس کی دولہن پر نکاح کے دن ہی کسی غیرمرد کی نظر پڑے؟ اور اسے گھر لانے کے بجائے ہوٹلوں پر لے جایا جائے؟

ایک فکرمند شہری نے اطلاع دی ہے کہ :
مالیگاؤں میں شادیوں کے سیزن میں بہت سارے اوباش نوجوانوں کی ٹیم ہائے وے کی ہوٹلوں پر عصر سے پہنچ جاتے ہیں، باقاعدہ موبائل فون پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں کہ کون سی ہوٹل پر ابھی دولہن کی گاڑی آئی ہے؟ وہاں پہنچ کر اس حکمت سے فوٹو گرافی کرتے ہیں کہ فریم میں نوجوان لڑکیاں اور کسی طرح دولہن بھی سیلفی فوٹو میں آ جائے، اسی دوران کم عمر لڑکوں کو لگا کر کسی طرح لڑکیوں کے فون نمبر حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔ (تبصرہ مکمل ہوا)

پھر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دولہن لانے جانے کے لیے اگر بعض رشتہ دار لڑکیاں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جائیں تو اس کی وجہ سے بہت سے گھرانوں میں شادی جیسے خوشی کے دن تنازعے اور جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں۔

لہٰذا پہلے والے طریقے کو پھر سے شروع کرنا چاہیے کہ بڑی عمر کی خواتین خاموشی کے ساتھ رکشے وغیرہ پر جاکر دولہن لے آئیں یا پھر دولہن کے گھر کی ہی دو بڑی عمر کی خواتین دولہن کو چھوڑ آئیں کہ یہ دونوں طریقہ سنت اور شریعت کے مطابق ہونے کی وجہ سے بابرکت بھی ہوگا، یا اگر مزید خواتین بھی دلہن لانے کے لیے جارہی ہیں تو وہ مکمل پردہ کی رعایت کے ساتھ جائیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر اپنا میک اپ اور سنگھار غیرمردوں کو قطعاً نہ دکھائیں کہ یہ سخت گناہ کی بات ہے اور اس کی نحوست کا اثر نکاح پر بھی پڑے گا۔ اور دولہن لے کر سیدھے گھر آئیں، اگرتفریح کے لیے جانا ہی ہے تو صرف ہائی وے کا ایک چکر لگا لیں، دولہن کو لے کر ہوٹل وغیرہ پر بالکل نہ رُکیں کہ اس میں بے پردگی کا بڑا اندیشہ ہے۔

لہٰذا دولہا سمیت مرد سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں اور اس فضول خرچی وگناہوں والے کام کو فوری طور پر بند کروائیں۔ اسی طرح خواتینِ اسلام بھی اس اہم مسئلہ پر توجہ فرمائیں اور اس پر عمل کرکے دارین کی سرخروئی حاصل کریں۔

اللہ تعالیٰ ہماری ہمیں اور ہماری خواتین کو عقل سلیم اور شریعت کا فہم عطا فرمائے اور ہم سب کو شریعت وسنت کا پابند بناکر ہمیں دنیا وآخرت میں کامیاب بنائے۔ آمین یا رب العالمین

3 تبصرے:

  1. انصاری محمود21 جنوری، 2024 کو 12:19 PM

    ماشاء اللہ
    یہ پیغام آنا بہت ضروری تھا.

    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. Jazakallah مفتی صاحب بہت اہم تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشا اللہ صحیح کہا مفتی صاحب یہ بند ہونا چاہیے سنتوں کو چھوڑ کر فضول چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنت کے مطابق نکاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں