منگل، 2 جنوری، 2024

ہاروت ماروت کی حقیقت


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ہاروت و ماروت کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ جادوگر تھے اور ایک صاحب کہتے ہیں کہ فرشتے ہیں۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہاروت اور ہاروت دو فرشتے تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے جادو کے علم کے ساتھ ایک وقت بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے بھیجا تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ۔ (سورہ بقرہ جزء آیت : ١٠٢)
ترجمہ : اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔

تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ بابل عراق کا ایک مشہورشہر تھا، ایک زمانے میں وہاں جادو کا بڑا چرچا ہوگیا تھا، اور یہودی بھی اس ناجائز کام میں بری طرح ملوث ہوگئے تھے، انبیاء کرام اور دوسرے نیک لوگ انہیں جادو سے منع کرتے تھے تو وہ بات نہ مانتے تھے، اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ لوگوں نے جادوگروں کے شعبدوں کو معجزے سمجھ کر انہیں اپنا دینی مقتدا بنالیا تھا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتے جن کا نام ہاروت وماروت تھا دنیا میں انسانی شکل میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ خدائی معجزات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، معجزہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جس میں کسی ظاہری سبب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اس کے برعکس جادو کے ذریعے جو کوئی شعبدہ دکھایا جاتا ہے وہ اسی عالم اسباب کا ایک حصہ ہے، یہ بات واضح کرنے کے لئے ان فرشتوں کو جادو کے محتلف طریقے بھی بتانے پڑتے تھے، تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح وہ سبب اور مسبب کے رشتے سے منسلک ہیں، لیکن جب وہ ان طریقوں کی تشریح کرتے تو ساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ بھی کردیتے تھے کہ یاد رکھو ! یہ طریقے ہم اس لئے نہیں بتا رہے ہیں کہ تم ان پر عمل شروع کردو، بلکہ اس لئے بتا رہے ہیں کہ تم پر جادو اور معجزے کا فرق واضح ہو اور تم جادو سے پرہیز کرو، اس لحاظ سے ہمارا وجود تمہارے لئے ایک امتحان ہے کہ ہماری باتوں کو سمجھ کر تم جادو سے پرہیز کرتے ہو یا ہم سے جادو کے طریقے سیکھ کر ان پر عمل شروع کردیتے ہو۔

یہ کام انبیاء کے بجائے فرشتوں سے بظاہر اس بنا پر لیا گیا کہ جادو کے فارمولے بتانا خواہ وہ صحیح مقصد سے کیوں نہ ہو، انبیائے کرام کو زیب نہیں دیتا تھا، اس کے برعکس فرشتے چونکہ غیر مکلف ہوتے ہیں اس لئے ان سے بہت سے تکوینی کام لئے جاسکتے ہیں بہر حال نافرمان لوگوں نے ان فرشتوں کی طرف سے کہی ہوئی باتوں کو تو نظر انداز کردیا اور ان کے بتائے ہوئے فارمولوں کو جادو کرنے میں استعمال کیا اور وہ بھی ایسے گھناؤنے مقاصد کے لئے جو ویسے بھی حرام تھے مثلاً میاں بیوی میں پھوٹ ڈال کر نوبت طلاق تک پہنچا دینا۔ (توضیح القرآن : ١/٨٣)

ہاروت ماروت اور زہرہ کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ان دونوں فرشتوں کو قوت شہوانیہ دے دی گئی تھی، اور زمین میں اتار دئیے گئے تھے۔ وہ زمین میں آئے تو زہرہ سے شہوت والی مطلب براری کا ارادہ کیا اور اس کو آمادہ کرنے کی کوشش کی اس پر اس نے ان سے اسم اعظم پوچھ لیا جس کے ذریعہ وہ آسمان پر چلی گئی اور وہاں ستارہ بن گئی۔ ان دونوں فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کا عذاب چاہتے ہو یا آخرت کا۔ تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو آخرت کے عذاب پر ترجیح دی اور وہ بابل کے کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور انہیں قیامت تک عذاب ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ ابن جوزی، علامہ قرطبی اور صاحب روح المعانی وغیرہ علماء نے اس قصہ کی تردید کی ہے اور اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

قال القرطبی أنہ قول تدفعہ الاصول فی الملائکۃ ھم أمناء اللّٰہ علی وحیہ و سفراء ہ الی رسلہ لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمُرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ، بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لاَ یَسْبِقُوْنَہٗ بالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ، یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ وَ أما العقل فلا ینکر وقوع المعصیۃ من الملائکۃ و ان یوجد منھم خلاف ما کلفوہ و یخلق فیھم الشھوات اذ فی قدرۃ اللّٰہ تعالیٰ کل موھوم و من ھذا خوف الانبیاء و الاولیاء الفضلاء العلماء لکن وقوع ھذا الجائز لایدرک الا بالسمع ولم یصح۔ (تفسیر قرطبی : ٥٢/٢)

قد أنکرہ جماعۃ منھم القاضی عیاض، و ذکر أن ماذکرہ أھل الاخبار و نقلہ المفسرون فی قصۃ ھاروت و ماروت لم یزدمنہ شیء لا سقیم ولا صحیح عن رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ و لیس ھو شیئا یوخذ بالقیاس، و ذکر فی البحر أن جمیع ذلک لا یصح منہ شیء، ولم یصح أن رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان یلعن الزھرۃ۔ ولا ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھما خلافا لمن رواہٗ و قال الامام الرازی بعد أن ذکر الروایۃ فی ذلک ان ھذہ الروایۃ فاسدۃ مردودۃ غیر مقبولۃ و نص الشھاب العراقی : علی ان من اعتقد فی ھاروت و ماروت أنھما ملکان یعذبان علی خطیئتھما مع الزھرۃ فھو کافر باللّٰہ تعالیٰ العظیم فان الملائکۃ معصومون (لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ۔ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ لاَ یَسْتَحْسِرُوْنَ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ ) والزھرۃ کانت یوم خلق اللّٰہ تعالیٰ السمٰوت والارض والقول بأنھا تمثلت لھما فکان ما کان وردت الی مکانھا غیر معقول ولا مقبول۔ و اعترض الامام السیوطی علی من أنکر القصۃُ بان الامام احمد و ابن حبان و البیھقی وغیرھم رو وھا مرفوعۃ وموقوفۃ علی علی و ابن عباس و ابن عمر و ابن مسعود (رض) باسانید صحیحۃ یکاد الواقف علیھا یقطع بصحتھا لکثرتھا و قوۃ مخرجیھا و ذھب بعض المحققین : ان ماروی مروی حکایۃ لما قالہ الیھود و ھو باطل فی نفسہ و بطلانہ فی نفسہ لایتا فی صحۃ الروایۃ ولا یرد ما قالہ الامام السیوطی علیہ انما یرد علی المنکرین بالکلیۃ۔ (روح المعانی : ١/٣٤١)

حديثُ هاروتَ وماروتَ من أنَّ الزُّهرةَ كانتِ امرأة فراوداها على نفسِها فأبت إلَّا أن يعلِّماها الاسمَ الأعظمَ فعلَّماها فقالتْهُ فرُفِعت كوْكبًا إلى السَّماءِ.
الراوي: -
    المحدث: ابن كثير
    المصدر:  البداية والنهاية
    الصفحة أو الرقم:  1/33
    خلاصة حكم المحدث:  أظنه من وضع الإسرائيليين [وروي] عن كعب الأحبار وهذا أصح وأثبت۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 جمادی الآخر 1445
  

1 تبصرہ: