سوال :
مفتی صاحب ! جنازہ جب تدفین کے لئے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو خواتین اجتماعی دعا کا اہتمام کرتی ہیں کہ میت کو قبر میں لٹانے سے پہلے جو کچھ پڑھا گیا ہے ۔قرآن پاک ۔ یا سورہ یسین کا نصاب وغیرہ ۔۔اس کا ثواب میت کو بخش دینے کیلئے اجتماعی دعا کا خصوصی اہتمام اکثر جگہ کیا جاتا ہے۔ شریعت کی روشنی میں یہ عمل کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد آصف، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جنازہ لے جانے کے بعد خواتین کا میت کے گھر جمع ہوکر اجتماعی دعا کرنا قرآن وحدیث اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کا فتوی ہے :
اس طرح اجتماعی دعا کرنا قرون مشہود لہا بالخیر میں ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کو رسم بنانا اور جو عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان پر نکیر کرنا اور ان کو ملامت کرنا یہ سب امور غلط ہیں۔ تاہم اگر اتفاقی طور پر اجتماعی دعا کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ کسی امر مندوب پر اصرار اس امر کو بدعت بنا دیتا ہے۔ والاصرار علی المندوب یبلغہ الی حد الکراہۃ (السعایۃ 2/65 باب صفۃ الصلوۃ)۔ (حوالہ نمبر : Ref. No. 1233/42-547)
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی ہے :
واضح رہے کہ میت کی طرف سے استغفار کرنا اور اس کے درجات بلند ہونے کی دعا کرنا جائز، بلکہ مستحسن عمل ہے، لیکن میت کے لیے دعا کرنے کی ایسی شکل اختیار کرنا جو نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہ ہو اور ائمہ مجتہدین و فقہاء کرام نے اسے نقل نہ کیا ہو، اس کو دین سمجھ کر کرنا "بدعت" ہے اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعات اللہ کے نزدیک مردود ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں لازم یا فضیلت کا کام سمجھتے ہوئے عورتوں کا میت لے جانے کے بعد اجتماعی دعا کرنے کا معمول بنا لینا بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور قابلِ ترک ہے۔ اور اگر سنت یا لازم سمجھے بغیر بھی یہ عمل کیا جاتا ہو تو عوام کا عقیدہ خراب ہونے کے اندیشے کی وجہ سے یہ رسم چھوڑ دینی چاہیے۔ (رقم الفتوی : 144205200359)
غالب گمان یہی ہے کہ ہمارے یہاں میت لے جانے کے بعد میت کے گھر خواتین کا لمبی لمبی اجتماعی دعاؤں کا جو التزامی سلسلہ شروع ہوگیا ہے اسے سنت اور دین سمجھا جارہا ہے، لہٰذا اسے بند کردینا چاہیے۔ مرحوم یا مرحومہ کو اپنی انفرادی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے اور اپنے طور سے ایصالِ ثواب کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔
(قوله : من أحدث في أمرنا هذا) الإحداث في أمر النبي، صلى الله عليه وسلم، هو اختراع شيء في دينه بما ليس فيه، مما لايوجد في الكتاب والسنة. قوله: (فهو رد) أي: مردود، ومن باب إطلاق المصدر على اسم المفعول، كما يقال: هذا خلق الله، أي : مخلوقه، وهذا نسج فلان، أي: منسوجه، وحاصل معناه: أنه باطل غير معتد بہ۔
وفيه : رد المحدثات وأنها ليست من الدين لأنه ليس عليها أمره، صلى الله عليه وسلم، والمراد به أمر الدين۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ١٣/٢٧٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 رجب المرجب 1445
مسئلہ پوچھنا بہت اچھی بات ہے اور بتانا اس بھی زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے الله قبول کرے۔ آمین۔
جواب دیںحذف کریںاصل بات یہ ہے کہ جب کسی کو کسی پریشانی پیش آتی۔ ہے اس وقت سب سوال پیدا ہو جاتے اور خود کے وقت سب دوسرے طریقے سے بات ہوتی۔(ہم تو شعریت کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ گھر والی کے ارمان ہیں وغیرہ وغیرہ
جزاک اللہ خیر
جواب دیںحذف کریں