سوال :
ایک شادی کے موقع پر سننے میں آیا ہے کہ جب دلہن رخصت ہوتی ہے تو اسکی سسرال سے یعنی دولہے کے گھر والے لینے آتے ہیں، لیکن وہاں پر دلہن کے رشتے دار دلہن کو دولہے کے گھر چھوڑنے جارہے تھے۔ وجہ دریافت کرنے پر اُن لوگوں نے بتایا کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پر چھوڑنے کے لیے گئے تھے۔ تو اس حوالے سے اُنکا کہنا ایسا ہے کہ ہماری شریعت میں دلہن کو اسکے رشتے دار دولہے کے گھر پہنچا تے ہیں نا کہ دولہے کے گھر والے لینے آتے ہیں جیسا کے چلتے آرہا ہے۔
اسمیں کتنی سچائی ہے؟ اور کیا حقیقت ہے؟ اور کیا ایسا کرنا درست ہے؟ دونوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ درست ہے؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں اصلاح فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : روایات میں یہ بات ملتی ہے کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں آپ کو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ کیا گیا تھا، بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت فاطمہ کو رخصت کرنے کے لیے نہیں گئے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت فاطمہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر چھوڑنے گئے تھے۔ لیکن چونکہ حضرت ام ایمن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آزاد کردہ باندی تھیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا لڑکی والوں کی طرف سے حضرت فاطمہ کو چھوڑنے گئی تھیں نہ کہ لڑکے والوں کی جانب سے لینے آئی تھیں۔ (١)
بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں ملتا ہے کہ آپ کی والدہ آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان پر پہنچا کر آئیں۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود تشریف لے گئے تھے نہ آپ نے کسی کو بھیجا تھا۔ (٢)
نیز ایسا بھی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے کسی کو دلہن لینے کے لیے بھیجا ہے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں آپ نے کچھ لوگوں کو دلہن لانے کے لیے بھیجا تھا۔ (٣)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر شادی گاوٴں میں اور پڑوس میں ہو رہی ہے تو کچھ عورتیں لے جاکر دلہن کو دولہا کے گھر چھوڑ آئیں اور اگر شادی گاوٴں سے باہر ہورہی ہے تو خود شوہر (دولہا) جاکر منکوحہ کو لے کر آجائے، اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی تعیین نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 65106)
معلوم ہوا کہ دلہن لانے یا چھوڑ کر آنے کے سلسلے میں شرعاً کچھ بھی متعین نہیں ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ لڑکی والوں کا لڑکی کو لڑکے کے گھر چھوڑ کر جانا سنت ہے۔ اور لڑکے والوں کا دلہن لانے جانا خلافِ سنت اور غلط ہے۔ درست نہیں ہے، بلکہ دونوں طریقہ درست ہے۔ البتہ اس میں پردہ کا لحاظ رکھنا اور فضول خرچی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ جیسا کہ چند سالوں سے ہمارے شہر میں رائج ہوگیا ہے کہ نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بڑی بڑی گاڑیوں میں دولہن لانے جاتی ہیں اور اسے براہ راست گھر لے جانے کے بجائے ہائی وے کی ہوٹلوں پر چلی جاتی ہیں اور وہاں جاکر بے پردگی کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے جو ناجائز، گناہ اور نکاح میں بے برکتی کا سبب ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
سب سے بہتر طریقہ یہ ہے لڑکے یا پھر لڑکی والوں کی طرف سے دو بڑی عمر کی خواتین خاموشی سے جاکر دلہن لے آئیں یا لڑکے کے گھر چھوڑ کر آجائیں۔
١) فجاءت مع أم أيمن، فقعدت في جانب البيت، وأنا في الجانب الآخر، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ها هنا أخي؟) قالت أم أيمن: أخوك وقد زوجته ابنتك؟! ... وفي روایة أخری: فزوجه فاطمة، فقبض ثلاث قبضات، فدفعها إلى أم أيمن فقال: اجعلي منها قبضة في الطيب، والباقي فيما يصلح للمرأة من المتاع، فلما فرغت من الجهاز، وأدخلتها بيتاً قال: يا على، لا تحدثن إلى أهلك شيئاً حتى آتيك۔ (اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب : ٣)
٢) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْنِي أُمِّي، فَأَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ، فَقُلْنَ : عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥١٥٦)
٣) وروی عن سعید عن قتادة أن النجاشي زوج النبيﷺ أم حبیبة بنت أبي سفیان رضي الله عنهما بأرض الحبشة وأصدق عنه بمائتي دینار ... (إلی أن قال) زوجها إیاه النجاشي وجهزها إلیه وأصدقها أربعمائة دینار، و أولم علیها عثمان بن عفان لحماً وثریداً وبعث إلیها رسول الله ﷺ شرحبیل ابن حسنة فجآء بها ..." الخ۔ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب : ۴۰۱/۴۔ ۴۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 رجب المرجب 1445
ماشاء اللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریں