سوال :
ابو جہل کی مٹھی میں کنکروں کے کلمہ پڑھنے کے متعلق قصہ کی کیا حقیقت ہے؟ ایک صاحب نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
(المستفتی : حافظ حذیفہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور قصہ کہ "ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ یہ بتادو کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے تو میں کلمہ پڑھ لوں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اس کی مٹھی میں موجود کنکر نے کلمہ پڑھ دیا۔" اگرچہ عوام اور بعض خواص میں بھی مشہور ہے، لیکن اس واقعہ کا کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت سے ثبوت نہیں ملتا۔
جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی ہے :
سوال میں مذکورہ واقعہ حدیث کی صحیح بلکہ ضعیف کتابوں سےہمیں نہیں ملا، اس لیے بظاہر یہ موضوع قصہ ہے۔ ایسے من گھڑت قصے کو نقل کرنے سے احتراز لازم ہے۔ (رقم الفتوی : 80776)
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور شخص کی بات درست ہے، اس واقعہ کو بیان کرنے سے بچنا چاہیے۔ البتہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں پتھروں اور درختوں کا گواہی دینا صحیح احادیث سے ثابت ہے جن میں سے چند روایات درج ذیل ہیں۔ لہٰذا اسے بیان کرنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم نبی کریم ﷺ کے جارہے تھے کہ راستے میں ایک اعرابی ملا، جب وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا تو آپ نے اس سے فرمایا : کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا اپنے گھر جارہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا خیر و بھلائی کی طلب ہے؟
اس نے کہا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ﷺ ہیں، اس نے کہا جو آپ کہہ رہے ہیں اس کا کوئی گواہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ (سامنے والا) درخت گواہی دے گا، پھر آپ نے اس درخت کو اپنے پاس بلایا ، جبکہ وہ وادی کے ایک کنارے پر تھا، اس پر وہ درخت زمین چیرتا آپ ﷺ کے پاس آکھڑا ہوا ، آپ ﷺ نے اس سے تین مرتبہ گواہی طلب کی، اس نے حسب ارشاد گواہی دی، پھر اپنی جڑ والی جگہ واپس چلاگیا، اور اعرابی اپنی قوم کے پاس چلا گیا، اور جاتے جاتے کہہ گیا کہ اگر میری قوم نے میری بات مانی تو میں ان کے ساتھ آپ کے پاس آؤں گا، بصورت دیگر خود اکیلا آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا۔ (دارمی)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے مجھ پر سلام کیا کرتا تھا۔ (مسلم)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)
كنا مع رسولِ اللهِ ﷺ في سفَرٍ فأقبلَ أعرابِيٌّ فلما دنا قال له النبيُّ ﷺ أين تريدُ قال إلى أهلي قال هلْ لكَ في خيرٍ قال وما هو قال تشهدُ أنْ لّا إلَهَ إلّا اللهُ وحدَه لا شريكَ لَهُ وأنَّ محمدًا عبدُه ورسولُهُ قال مِنْ شاهْدٍ على ما تقولُ قال هذِه الشجرةُ فدعاها رسولُ اللهِ ﷺ وهيَ بشاطِئِ الوادي فأقبَلَتْ تخُدُّ الأرضَ خَدًّا حتى جاءَتْ بينَ يدَيْهِ فاستشْهَدَها ثلاثًا فشهِدَتْ أنه كما قال ثم رجَعَتْ إلى مَنْبَتِها ورجع الأعرابِيُّ إلى قومِهِ وقال إنْ يَتَّبِعُوني آتِيكَ بهم وإلّا رجَعْتُ إليكَ فكنتُ معكَ
الراوي : عبدالله بن عمر • الهيثمي، مجمع الزوائد (٨/٢٩٥) • رجاله رجال الصحيح • أخرجه الطبراني (١٢/٤٣٢) (١٣٥٨٢) واللفظ له، وأخرجه الدارمي (١٦)، وابن حبان (٦٥٠٥) باختلاف يسير
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّةَ کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں